حکومتی عدم توجہی کے باعث صحت کا شعبہ ابتری کا شکار
پاکستان میں 963 مریضوں کے لیے صرف ایک ڈاکٹر موجود ہے۔
پاکستان میں حکومتی عدم توجہی کے باعث صحت کا شعبہ انتہائی ابتری کا شکار ہے۔ ایک اقتصادی جائزہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے دعووں کے برعکس ملک میں صحت عامہ کا شعبہ مزید پیچیدگیوں سے دوچار ہوتا جارہا ہے۔ کسی جامع پالیسی کے تحت ملک میں ڈاکٹرز، نرسز اور اسپتالوں میں خاطر خواہ اضافہ نہیں کیا گیا ہے۔
اقتصادی جائزہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 963 افراد کے لیے صرف 1 ڈاکٹر جبکہ 9 ہزار 413 افراد کے لیے ایک دندان ساز (ڈینٹسٹ) موجود ہے۔ صحت کے شعبے کی مایوس کن صورتحال کی وجہ سے ملک بھر میں زچگی کے دوران زچہ اور بچہ کی شرح اموات میں خطرناک حد تک اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
ایکسپو ویکسینیشن سینٹر کے انتظامی امور سے عوام مطمئن
اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں ایک سال کے دوران ڈاکٹرز کی تعداد میں 12 ہزار 726 کا اضافہ ہوا ہے اور ملک میں ڈاکٹرز کی کل تعداد 2 لاکھ 45 ہزار 987 تک پہنچ گئی ہے۔ ایک سال کے دوران دندان ساز ڈاکٹرز کی تعداد میں 2 ہزار 430 کا اضافہ ہوا ہے جن کی کل تعداد 24 ہزار 930 سے بڑھ کر 27 ہزار 360 ہوگئی ہے۔
ایک سال میں نرسز کی تعداد میں 4 ہزار 536 کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے جن کی کل تعداد 1 لاکھ 12 ہزار 659 سے بڑھ کر 1 لاکھ 16 ہزار 659 ہوگئی ہے۔ جبکہ رجسٹرڈ ہیلتھ وزیٹرز کی تعداد 796 کے اضافے کے ساتھ تعداد 21 ہزار 361 ہوگئی ہے۔
نومولود بچوں کی شرح اموات
اقتصادی جائزے کے مطابق پاکستان میں سال 2019 میں نومولود بچوں کی شرح اموات 55.7 فیصد ریکارڈ کی گئی جبکہ انڈونیشیا میں یہ تعداد 20 فیصد، ملائیشیا میں 7.3 فیصد، فلپائن میں 21.6 فیصد اور تھائی لینڈ میں 7.7 فیصد ہے۔
زچگی میں خواتین کے مرنے کی شرح خطرات
رپورٹ کے مطابق پاکستان میں صحت کا شعبہ اس قدر ابتری کا شکار ہے کہ ملک میں دوران زچگی 1 ہزار خواتین میں سے 189 خواتین موت کا شکار ہو جاتی ہیں۔ ماہرین کے مطابق شرح اموات میں خطرناک اضافے کی بڑی وجوہات طبی سہولیات کا فقدان، غیرتربیت یافتہ طبی عملہ اور غربت کے سبب مناسب رقم کا نہ ہونا بھی شامل ہے۔ ملائیشیا میں دوران زچگی 1 ہزار خواتین میں سے 29 اور تھائی لینڈ میں 37 خواتین موت کا شکار ہوجاتی ہیں۔









