سوات میں 2 ہزار سال پرانی فریسکو پینٹنگز دریافت

نوادرات کے قومی ادارے کے ڈائریکٹر نے بتایا ہے کہ دریافت ہونے والی  فریسکو پینٹنگز قدیم گندھارا کے ابتدائی دور کی ہیں۔

پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع سوات میں پہلی صدی عیسوی کے قدیم آثار دریافت ہوئے ہیں۔ ڈائریکٹر آرکیالوجی عبدالصمد نے بتایا کہ کھدائی کے دوران 2 ہزار سال قدیم آثار ملے ہیں اور دریافت شدہ آثار میں پلستر کی گئی بدھا کی 3 فریسکو پینٹنگز اور سکے بھی شامل ہیں۔

نوادرات کے قومی ادارے کے ڈائریکٹر نے بتایا ہے کہ دریافت ہونے والی  فریسکو پینٹنگز قدیم گندھارا کے ابتدائی دور کی ہیں۔ ماہرین آثار قدیمہ نے بریکوٹ کے علاقہ نجی گرام میں ایسی ہی دو ہزار سالہ پرانی یونیورسٹی کے اطراف کھدائی شروع کی ہوئی ہے جہاں سے مذید نوادرات کے ملنے کا امکان ہے۔

فریسکو پینٹنگز
محکمہ آثار قدیمہ خیبرپختونخوا

اس میں ایک اہم دریافت دوہری منزل والی عمارت یعنی ڈبل سٹوری عمارت بھی ملی ہے۔ اس مقام پر اب تک 45 فیصد کھدائی ہوئی ہے اور اِس مقام سے مزید نوادرات کے دریافت ہونے کا امکان ہے۔

پینٹنگز بنانے میں مختلف ٹیکنیکس استعمال کی جاتی ہیں۔ عبدالصمد خان نے بتایا کہ فریسکو بونو، فریسکو اور ٹیپمرا ٹیکینک یہ تین مختلف اقسام کی پینٹنگز ہیں اور اس میں گیلی یعنی تر سطح پر پینٹنگز بنائی جاتی ہے اور اس میں سیاہی جذب ہوجاتی ہے اور اس میں مستقل ہوجاتی ہے۔

شدت پسندی سے قدیم ورثے کا نقصان

خیبرپختونخوا کا ضلع سوات تاریخی ثقافتوں کا امین رہا ہے۔ یہاں بدھ مت اور راج شاہی کے ہزاروں برس قدیم نوادرات اور آثار موجود ہیں۔ لیکن سوات اور مالاکنڈ سے شروع ہونے والی طالبان شورش کے دوران ہزاروں سال قدیم تاریخی ورثے کو بھی نقصان پہنچا تھا۔

طالبان شدت پسندوں کے خلاف عسکری کارروائی کے نتیجے میں شدت پسندوں نے سوات اور بونیر کے طول وعرض میں ہندو اور بدھ مت کے ہزاروں سالوں پرانے ورثے کو بھی بے دردی سے تباہ کیا تھا۔ یہ علاقے قدیم تہذیبوں کے مرکز رہے ہیں اوریہاں بدھ مت مذہب کے ماننے والے آتے رہے ہیں۔

فریسکو پینٹنگز
محکمہ آثار قدیمہ خیبرپختونخوا

یہ بھی پڑھیے

پشاور میں طالبات کا ہراسگی کے خلاف احتجاج

سوات کے سیاحتی مرکز مالم جبہ میں تقریباً 2 ہزار سال پرانے بدھا کے 2 مجسموں کوتباہ کردیا گیا۔ اِس کے علاوہ جان آباد کے علاقے میں موجود ایک مجسمے کا چہرہ شرپسندوں نے مسخ کردیا تھا۔ عالیگئے میں بھی ہزاروں سال پرانے مجسموں کو جزوی نقصان پہنچایا گیا۔

گندھار ا تہذیب کی نشانیوں کو مختلف ادوار میں نقصان پہنچائے جانے کے بارے میں مقامی افراد کا ایک الگ بیان ہے۔ مقامی افراد سمجھتے ہیں کہ اس قیمتی ورثے اور نوادرات کی تباہی میں عسکریت پسندوں سے زیادہ محکمہ آثار قدیمہ کے اہلکاروں کی غفلت شامل ہے۔

کیونکہ طالبان کی آمد سے قبل حکومت نے اس قیمتی ورثے کو محفوظ کرنے کےل یے کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ طالبان عسکریت پسندوں نے سب سے زیادہ نقصان جان آباد کے بدھا کو پہنچایا جو بامیان کے بعد سب سے بڑا بت تھا۔

 اب بھی سوات کے عجائب گھر میں طالبان شدت پسندوں اور محکمہ اثار قدیمہ کی غفلت سے بچ جانے والی نوادرات اور دریافتیں موجود ہیں جنہیں تاریخ میں دلچسپی رکھنے والے برے شوق سے دیکھتے ہیں۔

متعلقہ تحاریر