شاہ اللہ دتہ کے غار مذہبی و تاریخی اہمیت کے حامل

پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے جنوب مغرب میں شاہ اللہ دتہ کے نام سے منسوب گاؤں واقع ہےجو تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ روایت ہے کہ 700 سال پہلے شاہ اللہ دتہ نام کے بزرگ نے یہ گاؤں بسایا تھا۔ یہاں قدیم اور تاریخی اہمیت کے غار موجود ہیں جن کی مذہبی اہمیت ہندو، بدھ مت، جین مت، سکھ اور مسلمانوں سب کے لئے مختلف ادوار میں یکساں رہی ہے۔

ہزاروں برس تک یہ راستہ قافلوں کی قیام گاہ رہا۔ ان غاروں کو دیکھ کر یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ غاروں میں کسی زمانے میں سرائے قائم تھے اور مسافر یہاں قیام کرتے تھے۔ آج بھی ان غاروں کے قریب سناٹے میں ماضی کے ان قافلوں میں شامل جانوروں کے گلے میں پڑی گھنٹیوں کی صدا گونجتی محسوس ہوتی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

ٹریلز اسلام آباد کے شہریوں کے لیے ورزش اور تفریح کا ذریعہ

مورخین کہتے ہیں کہ جب سولہویں صدی میں مرکزی شاہراہ تعمیر ہوئی تو یہاں واقع راستے کا استعمال رفتہ رفتہ ترک کردیا گیا۔ تاریخی اہمیت کے حامل یہ غار اور گاؤں وقت گزرنے کے ساتھ مزید اہمیت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔

اسلام آباد، گردونواح اور پاکستان سمیت دنیا کے مختلف علاقوں سے لوگ اس تاریخی مقام کا رخ کرتے ہیں۔ شاہ اللہ دتہ کے یہ غار سکندر اعظم، کوٹلیہ چانکیہ، پانینی، چندر گپت موریہ اور اشوکِ اعظم سمیت کئی مغل حکمرانوں اورنامور ہستیوں کے بھی گواہ ہیں۔

کسی نے یہاں قیام کیا اور کئی ہستیوں نے اسی مقام پر چلہ کشی کرکے دنیا فانی کی حقیقتوں کو پالیا۔محققین کے مطابق بعض ہندو مؤرخین یہ قیاس بھی کرتے ہیں کہ شیو اور ان کی بیوی سیتا  نے راج کٹاس جاتے ہوئے یہی راستہ اختیار کیا تھا۔

کیونکہ یہ راستہ عمومی گزر گاہ تھا تو یہ بھی قیاس کیا جاسکتا ہے کہ داتا گنج شکر اور  خواجہ معین الدین چشتی  اجمیری جیسے صوفیا بھی یہاں سے گزرے ہوں گے۔

مارگلہ کے دامن میں بسے اس گاؤں میں بہت سی تاریخی جگہیں ہیں۔ یہاں شیر شاہ سوری کا قائم کردہ کنواں اور دیوار بھی ہے۔ تاریخ دانوں کے مطابق یہ غار ہزاروں سال پرانے ہیں جن پر بدھوں کے مذہبی پیشوا ’مہاتما بدھ‘ کے نقوش تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ نقوش تو مٹ گئے لیکن غار کے خدوخال ویسے ہی ہیں۔

یہاں برگد کے قدیم جٹھاداری درخت بھی لگے ہیں۔ محکمہ آثار قدیمہ کے مطابق یہ درخت بھی تقریباً 700 سال پرانے ہیں۔ یہاں آنے والے سیاح بالخصوص بچے ان برگد کے بزرگ درختوں کوچھو کر دیکھتے اور اٹکھیلیاں کرتے ہیں جبکہ کئی درخت ان بچوں کو باہوں میں لے کر جھولہ بھی جھلاتے ہیں۔ یہ درخت طرح طرح کے پرندوں کا بھی مسکن ہیں جو شام کو گھر لوٹتے ہیں تو اس قدر شور کرتے ہیں کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔

غاروں کے قریب ایک چشمہ بھی ہےجس کا پانی متبرک سمجھا جاتا ہے۔ آج بھی اس تالاب میں مچھلیاں تیرتی دیکھی جاسکتی ہیں یہی پانی غاروں کے ساتھ واقع ایک باغ کو بھی سیراب کرتا ہے جسے سادھو کا باغ کہتے ہیں۔ آج بھی قریبی آبادیوں کے رہائشی یہاں سے پانی بھر کر لے جاتے ہیں۔ یوں ہزاروں برس سے یہ چشمہ لوگوں کی پیاس بجھا رہا ہے۔

 ان غاروں سمیت 4 مقامات کی دیکھ بھال وفاق کے ذمے ہے۔ جن میں بن فقیراں کا سٹوپہ، پھروالہ اور روات کے قلعے شامل ہیں مگر افسوس کہ یہ تاریخی اور قیمتی مقامات اب تک وفاقی حکومت کی توجہ حاصل نہیں کر سکے۔ قریب واقع تعمیرات سے ان تاریخی مقامات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے۔

متعلقہ تحاریر