کرونا اور پولیو مہم کا حال کیا ایک جیسا ہوگا؟

انٹرنیشنل مانیٹرنگ بورڈ نے اپنی تازہ رپورٹ میں سوال کیا ہے کہ اگر پاکستان کرونا سے نمٹ سکتا ہے تو پولیو سے کیوں نہیں؟

سال 2020 اپنے اختتام کو پہنچنے والا ہے۔ دنیا کرونا وبا سے نمٹ رہی ہے اور پاکستان اب تک پولیو کو ہی شکست نہیں دے سکا ہے۔ گھر گھر جا کربچوں کو پولیو کے قطرے پلانے والی خواتین پولیو ورکرز کو ہراساں کیا جارہا ہے۔

انڈیپنڈنٹ مانیٹرنگ بورڈ (آئی ایم بی) نے اپنی حالیہ رپورٹ میں سوال کیاہے کہ اگر پاکستان کرونا سے نمٹ سکتا ہے، وباء کے پھیلاؤ کو دیکھنے کے لیے وسائل کا استعمال کرسکتا ہے تو پولیو کے معاملے میں ایسا کچھ کیوں نہیں کیا جاتا؟

رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ 2016 کی شروعات سے نومبر 2020 تک گلوبل پولیو ایریڈیکیشن انیشیٹیو (جی پی ای آئی) نے پاکستان میں پولیو کے خاتمے کے لیے ایک ارب 16 کروڑ ڈالرز کی رقم خرچ کی ہے۔

رپورٹ کے مطابق دسمبر کے اوائل تک ملک میں ٹائپ ون ‘وائلڈ پولیو وائرس’ کے 82 کیسز جبکہ ٹائپ ٹو ‘ویکسین ڈرائیوڈ پولیو وائرس’ یعنی وی ڈی پی کے 104 کیسز رپورٹ ہوئے۔

یہ بھی پڑھیے

کووڈ کی ویکسین کے بارے میں پاکستانیوں کے خدشات

کئی حکومتیں آئیں اور گئیں لیکن اب تک کوئی سیاسی جماعت اقتدار میں آنے کے بعد اس بیماری کو پاکستان سے ختم نہیں کرسکی۔ تاہم اس معاملے میں حکومتی نااہلی کے ساتھ ساتھ عوام کی غفلت بھی شامل ہے۔

ماں باپ اپنے بچوں کو اسپتال لے جا کر پولیو کے قطرے پلانے میں کوتاہی کرجاتے ہیں اور جب پولیو ورکرز ویکسین لگوانے کے لیے گھروں کے دروازے کھٹکھٹاتے ہیں تو ان کی تضحیک کی جاتی ہے۔

خواتین پولیو ورکرز کی ہراسگی کا معاملہ

خواتین پولیو ورکرزکی ان مشکلات کو الگ رکھیں تو بھی ایک اہم ترین مسئلہ خواتین ورکرز کو ہراساں کرنے کا ہے۔ پشاور میں پولیو ٹیم کے سینئر اراکین نے خواتین ورکرز کو ہراساں کرنے کی اطلاعات دی ہیں۔

صحافی حیدر کلیم نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ویڈیوشیئر کی جس میں ایک خاتون پولیو ورکر نے اعلیٰ عہدیدار کی جانب سے انہیں ہراساں کیے جانے کا الزام عائد کیا یھا۔

خاتون پولیو ورکرنے مزید بتایا کہ اس حوالے سے متعدد مرتبہ شکایات درج کرائی گئیں۔ ان کی آوازسنی گئی اورنا ہی کوئی ایکشن لیا گیا۔

دوسری جانب اگر کرونا وائرس کی بات کریں تو جلد ہی اس کی ویکسین بھی پاکستان پہنچ جائے گی یا ہوسکتا ہے یہی ورکرزکرونا ویکسین دینے کے  لیے بھی دروازے پر دستک دیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایسی صورت میں بھی عوام کا رویہ ورکرز کے ساتھ یہی ہوگا؟ اگرایسا رہا تو پاکستان پولیو کی طرح کرونا پر بھی قابو نہیں پاسکے گا جو کہ ایک لمحہ فکریہ ہے۔

متعلقہ تحاریر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے