طالبان اور عالمی طاقتوں کے درمیان ڈیڈلاک برقرار
طالبان کی حکومت کو ان کے سخت گیرقوانین جن کو انھوں نے اسلامی قوانین کا نام دیا ہے ان کی وجہ سے دنیا کے ممالک تسلیم کرنے سے کترا رہے ہیں

وادی پنجشیرسمیت افغانستان پراپنی مکمل عملداری قائم کئے ہوئے طالبان کو تقریبا ایک ماہ ہونے والا ہے اس دوران طالبان ترجمان نے وزیراعظم اور ان کے دو معاونین سمیت 34 رکنی عبوری کابینہ اور حکومت کا اعلان کیا جس میں 20 وزرا اور سات نائب وزرا شامل ہیں۔
طالبان کی جانب سے افغانستان میں عبوری حکومت کے اعلان کے بعد صرف خلیجی ملک قطر ہے جس نے باضابطہ طورپر طالبان کی حکومت کو تسلیم کیا ہے جبکہ دیگرممالک طالبان کے ماضی کے رویوں کے باعث ابھی تک شش پنج کا شکار ہیں، برطانیہ، فرانس، امریکہ اور دیگر ممالک نے طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
طالبان حکومت: افغانستان انسانی بحران سے نکل پائے گا؟
طالبان کی حکومت کو ان کے سخت گیر قوانین جن کو انھوں نے اسلامی قوانین کا نام دیا ہے ان کی وجہ سے دنیا کے ممالک تسلیم کرنے سے کترا رہے ہیں ۔ طالبان کا کہنا تھا کہ ان کے یہ قوانین طالبان کی جانب سے بنائے گئے نہیں بلکہ اسلامی شرعی نظام کے تحت ہیں تاہم عالمِ اسلام میں کوئی بھی اسلامی ملک شریعت کی اس قدر قدامت پسند تشریح نہیں کرتا جتنی کے طالبان نے کی ہے ۔
افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت کے ثقافت اور اطلاعات کے نائب وزیر اطلاعات ذبیح اللہ مجاہد نے دارالحکومت کابل میں ایک اہم پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ پہلے ہماری حکومت کو تسلیم کیا جائے خدشات کو دور کرنے کیلئے تعاون کریں گے ، انھوں نے کہا کہ دنیا کے طالبان کے حوالے سے خدشات اپنی جگہ لیکن گفتگو ان سے کی جائے گی جو ہماری حکومت کو تسلیم کریں گے۔
امریکہ سمیت دیگر ممالک نے طالبا ن سے مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ طالبان کی حکومت کو اس صورت میں تسلیم کیا جائے گا جب ان کی کابینہ میں خواتین سمیت تمام افغان فریقین کی نمائندگی ہوگی ،جبکہ طالبان کی جانب سے اعلان کردہ 34 عہدوں میں تین افراد کے علاوہ تمام پشتون النسل مرد افغان ہیں اور کابینہ میں کسی خاتون کو شامل نہیں کیا گیا جبکہ خواتین کو حکومت میں نمائندگی دینے کی شرط بنیادی ہے۔
ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ تنقید کرنے والوں کے لیے اچھا ہوگا کہ وہ ہمارے ساتھ ذمے دارانہ طور پر برتاؤ کریں، تنقید کرنے والے ہماری حکومت کو ذمے دار انتظامیہ کے طور پر تسلیم کریں تو ان کے ساتھ بات کی جاسکتی ہے۔
عالمی برادری اس بات پر مضر ہے کہ طالبان پہلے حکومت سازی میں خواتین سمیت تمام فریقین کو شامل کرکے ایک مشترکہ حکومت تشکیل دیں جبکہ طالبان کا کہنا ہے کہ پہلے ہماری حکومت کو تسلیم کیا جائے اس کے بعد تمام خدشات پر بات کی جائے گی ، بظاہر تو ایسا محسوس ہورہا ہے کہ دونوں ہی فریق اپنے فیصلوں پر ڈٹے ہوئے ہیں تاہم اگر یہ معاملا حل نہیں ہوا توصورتحال ایک بار پھر گھبیر ہوسکتی ہے جس میں قدری بہتری دیکھنے میں آرہی ہے۔
ذبیح اللہ مجاہد نے آج کی جانے والی پریس کانفرنس میں افغانستان میں قیام امن کے لیے عمران خان کی کوششیوں کی تعریف کرتےہوئے کہا ہے کہ قیامِ امن کے لیے پاکستانی وزیرِ اعظم عمران خان کی کوششیں قابلِ ستائش ہیں، پاکستان افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کر رہا۔