افغانستان اندھیرے میں ڈوبنے کا خدشہ
ڈابس کے اکاؤنٹس میں 40 ملین ڈالر موجود تھے لیکن عالمی پابندیوں کی وجہ سے طالبان اس رقم کو بجلی تقسیم کار کمپنیوں کی ادائیگیوں کے لیے استعمال نہیں کرسکتے۔
افغانستان کا دارالحکومت کابل سردیاں شروع ہوتے ہی اندھیرے میں ڈوب سکتا ہے کیونکہ ملک کے نئے حکمران طالبان نے نہ تو وسط ایشائی ریاستوں کی بجلی فراہم کرنے والی کمپنیز کو ادائیگیاں کی ہیں اور نہ ہی صارفین سے بجلی کے بل اکٹھے کیے ہیں۔
افغانستان میں بجلی کی آدھی ضروریات ازبکستان، تاجکستان اور ترکمنستان سے درآمد شدہ بجلی پر انحصار کرتی ہیں جبکہ ملک کے مغربی حصے میں ایران اضافی بجلی بھی فراہم کرتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
طالبان حکومت: افغانستان انسانی بحران سے نکل پائے گا؟
ہائیڈروپاور اسٹیشنز پر ہونے والے بجلی کی مقامی پیداوار اس سال آنے والے قحط کی وجہ سے متاثر ہوئی ہے۔ افغانستان میں نیشنل پاور گرڈ نہیں ہے اور ملک بجلی کے لیے مکمل طور پر وسط ایشائی ریاستوں پر انحصار کرتا ہے۔
طالبان کے حکومت سنبھالنے کے بعد سے افغان دارالخلافہ میں بجلی وافر مقدار میں موجود ہے کیونکہ طالبان وسط ایشیا سے آنے والی کسی ٹرانسمیشن لائن کو تباہ نہیں کررہے۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ صنعتیں رکی ہوئی ہیں، اکثر عسکری و حکومتی تنصیبات میں بھی کام نہیں ہورہا، اس طرح بجلی کا ایک بڑا حصہ صرف گھریلو صارفین استعمال کررہے ہیں اور اسی وجہ سے لوڈشیڈنگ بھی نہیں ہورہی ہے۔
لیکن یہ سب اچانک ختم ہوسکتا ہے اگر وسط ایشیائی ریاستیں بالخصوص تاجکستان، عدم ادائیگی پر ڈابس کو بجلی کی فراہمی معطل کردے۔
طالبان کے اقتدار میں آنے کے وقت ڈابس کے اکاؤنٹس میں 40 ملین ڈالر موجود تھے لیکن عالمی پابندیوں کی وجہ سے طالبان اس رقم کو بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی ادائیگیوں کے لیے استعمال نہیں کرسکتے۔
ڈابس پر واجب الادا رقم 90 ملین ڈالر سے تجاوز کرچکی ہے اور اس میں مستقل اضافہ ہورہا ہے۔ حکومتی وزارتیں مہینوں سے تنخواہیں ادا نہیں کررہے جس کے باعث بینکنگ سسٹم مفلوج ہوچکا ہے اور اکثر افغان بجلی کا بل جمع کروانے کی استطاعت نہیں رکھتے۔