پینڈورا لیکس تحقیقات، پاکستانی اسٹارٹ اپس کو دھچکا پہنچنے کا خدشہ

تمام آف شور کمپنیز غیرقانونی یا بری نہیں ہیں، بھاری ٹیکسز سے بچنے کے لیے کاروباری افراد آف شور کمپنی بنا لیتے ہیں، اسد علی شاہ

بدنام زمانہ پانامہ لیکس کے بعد حال ہی میں سامنے آنے والے "پینڈورا لیکس” نے بھی ملکی و بین الاقوامی سطح پر ہنگامہ مچا رکھا ہے۔

پاکستان سے چوری کردہ اثاثوں کی مالیت 7 ٹریلین ڈالرز ہے جو کہ برطانیہ کے تین جی ڈی پیز کے مساوی ہے۔ یہ بات وزیراعلیٰ پنجاب کے معاون خصوصی برائے اطلاعات حسن خاور نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں بتائی۔

انہوں نے مزید لکھا کہ وزیراعظم عمران خان نے پینڈورا پیپرز میں شامل تمام شہریوں کے خلاف تحقیقات کا حکم دے دیا ہے اور جس کا جرم ثابت ہوجائے گا اس کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے گا۔

حسن خاور کے اس ٹویٹ کے جواب میں معروف چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ اور سابق وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کے صاحبزادے اسد علی شاہ نے ری ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ تمام آف شور کمپنیز غیرقانونی یا بری نہیں ہیں۔

اسد علی شاہ کا کہنا تھا کہ ان کمپنیز میں سے کئی صرف اس لیے بنائی جاتی ہیں تاکہ جن ممالک میں کم ٹیکس عائد ہوتا ہے اس سے فائدہ اٹھایا جاسکے۔

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں سینکڑوں کی تعداد میں نئے کاروبار قائم ہورہے ہیں جن میں سے کئی کو آف شور اکاؤنٹس یا کمپنیز کے ذریعے فنڈنگ وصول ہوتی ہے، پاکستان میں ٹیکس کی شرح بہت زیادہ ہے، میڈیا میں اس خبر کا نشر ہونا کہ تمام آف شور کمپنیز چوری شدہ پیسے سے قائم ہوئیں سراسر غلط ہے۔

پینڈورا باکس میں جہاں دنیا کے کئی ممالک کی سیاسی شخصیات کے نام آف شور کمپنیز، جائیدادوں اور اثاثوں کی تفصیلات منظرعام پر آئیں وہیں پاکستان کی بھی سیاسی و عسکری شخصیات کے نام اس فہرست میں شامل تھے۔

حکومت نے اعلان کیا ہے کہ تمام افراد کے خلاف تحقیقات کے بعد سخت کارروائی کی جائے گی۔

یہ بھی پڑھیے

پینڈورا پیپرز ، میڈیا مالکان تلاشی دیں

اس کے ساتھ ہی آف شور اکاؤنٹس کو بدعنوانی سے تشبیہ دی جارہی ہے جو کہ اسد علی شاہ کے مطابق بالکل غلط ہے۔

ضروری نہیں کہ آف شور اکاؤنٹس میں ناجائز ذرائع سے حاصل کردہ رقوم ہی جمع کروائی جائیں بلکہ ان اکاؤنٹس کا مثبت طریقے سے بھی استعمال ہوتا ہے۔

اسد علی شاہ نے جس جانب نشاندہی کی ہے وہ واقعی ایک سنجیدہ مسئلہ ہے کہ کئی بین الاقوامی ادارے اور جریدے پاکستان کی معیشت کو درست جانب گامزن قرار دے چکے ہیں جس کی ایک بڑی وجہ وہ نئے کاروبار ہیں جو ملک میں تیزی سے پھیل رہے ہیں۔

اگر حکومت نے آف شور اکاؤنٹس کی تحقیقات کے ضمن میں نئے سرمایہ کاری کرنے والوں پر سختی کی اور ان سے منی ٹریل طلب کی تو ایسا نہ ہو کہ وہ مایوس ہو کر اپنی انویسٹمنٹ نکال لیں اور یوں پاکستان ایک نئے معاشی بحران کا شکار ہوجائے۔

متعلقہ تحاریر