بھارتی پولیس صحافیوں کے خلاف تفتیش بند کرے، سی پی جے

بھارتی پولیس کو سمجھنا ہوگا کہ فرقہ وارانہ تشدد کی رپورٹنگ کرنا صحافیوں کے لیے معمول کی بات ہے، کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس

کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس نے کہا ہے کہ بھارتی ریاست ٹری پورا کی پولیس اکتوبر کے آخری ہفتے میں مسلمانوں کے خلاف پرتشدد کارروائیوں کی خبریں سوشل میڈیا پر شیئر کرنے والے صحافیوں کے خلاف تفتیش بند کرے۔

تین نومبر کو فائل کی گئی ایک شکایت میں ٹری پورا پولیس نے دعویٰ کیا کہ 102 سوشل میڈیا اکاؤنٹس قابلِ اعتراض خبریں اور بیانات کی ترویج کے ذمہ دار ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

سوپرمین نے کشمیر کو متنازع علاقہ کہہ دیا، بھارتی شہری چراغ پا

انڈیا میں پولیس نے گائے ذبح کرنے پر 7 مسلمانوں کو گرلیاں مار دیں

کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس (سی پی جے) نے اس میں سے 5 اکاؤنٹس کی تصدیق کی ہے جو کہ صحافیوں کے ہیں۔

ٹری پورا پولیس نے الزام لگایا کہ ان سوشل میڈیا اکاؤنٹس نے بھارتی قوانین کی خلاف ورزی کرکے دشمنی، جعل سازی اور مجرمانہ سازش کی ہے۔

سی پی جے کے ایشیا پروگرام کوآرڈینیٹر اسٹیون بٹلر نے کہا ہے کہ ٹری پورا میں بھارتی پولیس کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ فرقہ وارانہ تشدد کی رپورٹنگ کرنا، چاہے ٹوئٹر یا کسی بھی پلیٹ فارم پر، صحافیوں کے لیے ایک معمول کی بات ہے۔

انہوں نے کہا کہ پولیس صحافیوں کو کام کے دوران ہراساں کرنا بند کرے اور ان پر سے دہشتگردی کی دفعات کے تحت تفتیش ختم کرے۔

پولیس نے آصف سلطان، صدیق کپن، گوتم نولکھا، آنند ٹیلٹمبڈے اور منان ڈار کو گرفتار کیا ہے جبکہ چار صحافیوں میر فیصل، شیام میرا سنگھ، سرتاج عالم اور سی جے ورلیمین کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی تحقیقات کر رہی ہے۔

متعلقہ تحاریر