وبائی امراض سے نمٹنے کے لیے بین الاقوامی معاہدے کی ضرورت ہے، ماہرین
ڈبلیو ایچ او کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر جنرل جواید مہجر کے مطابق "مستقبل قریب میں ہمیں مزید وبائی بیماریاں کا سامنا ہوگا ۔
ماہرین کا کہنا ہے کسی بھی وبائی امراض سے نمٹنے کے لیے ایک بین الاقوامی معاہدے کی اشد ضرورت ہے، تاکہ وبائی مرض سے پیدا ہونے والے بحران سے مشترکہ طور پر نمٹا جاسکے۔
جنیوا میں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کا تین روزہ اجلاس ہوا جس میں گذشتہ دو سالوں کے دوران کووڈ 19 سے پیدا شدہ سنگین صورتحال اور کیسز پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیے
خبردار ہوشیار! کورونا وائرس کا افریقی ویریئنٹ آگیا
سوئفٹ خواتین کےمخصوص ایام میں چھٹیاں دینے والی پاکستان کی پہلی کمپنی
کووڈ 19 کے دوران معاشی بدحالی اور لاکھوں جانوں کے ضیاع نے نئے بین الاقوامی معاہدے کی ضرورت پر زور دیا ہے تاکہ آنے والے تباہی کو مشترکہ طور پر روکا جاسکے۔
ڈبلیو ایچ او کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر جنرل جواید مہجر نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ "مستقبل قریب میں ہمیں مزید وبائی بیماریاں کا سامنا ہوگا ۔ سوال یہ نہیں ہے کہ کب اور کہاں "۔
انہوں نے بتایا کہ 194 رکن ممالک پر مشتمل ڈبلیو ایچ او کا فیصلہ ساز ادارہ – جو وبائی امراض کے خلاف ایک ردعمل کے طور پر ایک معاہدہ تیار کرنے پر غور کرے گا اور جس کا بے مثال اجلاس پیر کو ہونے جارہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ مطلوبہ نتائج کے حصول کے لیے اجلاس کے اختتام پر قرارداد منظور کی جائے گی ، معاہدہ 2024 تک قابل عمل ہوگا۔
ڈبلیو ایچ او کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر جنرل جواید مہجر نے مزید کہا ہے کہ لیکن دیکھنا یہ ہے کہ کتنے ممالک اگلی آنے والی وباء کے لیے تیار ہیں اور کتنے ممالک ڈبلیو ایچ او کی طے کردہ شرائط پر اتفاق کرتے ہیں، اور آنے والے وباء کو ختم کرنے کے لیے کیا موثر اقدام اٹھاتے ہیں۔
کیا تیز رفتار ضابطے یا سخت معاہدہ کی ضرورت ہے؟
جواید مہجر نے کہا کہ موجودہ بین الاقوامی صحت کے ضوابط محض کوویڈ 19 کے نمٹنے کے لیے نہیں بنائے گئے تھے بلکہ ضوابط کو بنانے کا مقصد مساوات اور تیاری کو یقینی بنانا تھا۔
ڈبلیو ایچ او کے سربراہ ٹیڈروس اذانوم گیبریئسس ایک ایسا معاہدہ چاہتے ہیں جس سے "افسوسناک اور گھبراہٹ” کے دور کو ختم کیا جائے۔
بدھ کے روز ٹیڈروس اذانوم کا کہنا تھا کہ وبائی مرض سے پیدا شدہ افراتفری سے صرف ایک ہی صورت میں بچا جاسکتا ہے جب ہم ایک لوہے کی طرح مضبوط معاہدے طے کرلیں گے۔