پاکستانی اشرافیہ مجرمانہ حد تک فضول خرچ، 3سالوں میں 8بلین ڈالر کی اشیاء درآمد کیں

جس دوران پاکستان نے 35 بلین ڈالر کی خطیر رقم قرض لی اسی دوران اشرافیہ نے8بلین ڈالر کی غیر ضروری اشیاء درآمد کیں

وزیراعظم کی اقتصادی مشاورتی کونسل کے سابق رکن اور ماہر معاشیات ثاقب شیرانی نے انگریزی اخبار ’’ڈان‘‘ کو لکھے گئے ایک مضمون میں انکشاف کیا ہے کہ 2018 میں پاکستان کو ادائیگیوں کے توازن کے سب سے بڑے بحران کا سامنا کرنا پڑا جس کو متوازن کرنے کےلئے  پاکستان قومی وقار کو گروی رکھ کر اور ملکی خودمختاری کو خطرے میں ڈال متعدد ذرائع سےمجموعی طورپر 35 بلین ڈالر قرض لینے پر مجبور ہوگیا۔

جہاں پاکستان نے 35 بلین ڈالر کی خطیر رقم  بطور قرض لی اسی  دوران  پاکستانیوں نے آٹھ بلین ڈالر کی پر تعیش گاڑیاں، موبائل فونز اور دیگر اشیاء درآمد کیں یہ تمام 8 بلین کی رقم 35 ملین ڈالر قرض کا تقریبا 25 فیصد بنتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

پاکستان کے G20کے قرضے ری شیڈول

ایشیائی ترقیاتی بینک کا پاکستان کو 30 کروڑ ڈالرزکا قرضہ

معاملہ پاکستانی اشرافیہ  کے غیرملکی  طرز زندگی اور درآمد شدہ غیر ضروری  اشیاء جن میں پرتعیش گاڑیاں ، موبائل فونز اور دیگر آلات  ہی شامل نہیں ہیں بلکہ  2019 سے 2021 کے دوران  پاکستان میں غیر ملکی فاسٹ فوڈ آؤٹ لیٹس ،  کیفے اور ریستورانوں کی متعدد نئی فرنچائزز کھلی ہیں جو نہ صرف مہنگی ترین اشیاء  پاکستانیوں کو فروخت کرتی ہیں بلکہ بھاری فرنچائز فیس بھی ادا کرتی ہیں اور منافع امریکی ڈالر میں بھیجتی ہیں۔

اس کے علاوہ ملک میں غیر ملکی برانڈڈ اشیاء فروخت کرنے والے نئے میگا مالز بھی کھل گئے ہیں جس میں عمدہ سگار، سگریٹ، پائپ تمباکو، پھلوں کے جوس، چاکلیٹ، غیر ملکی پھلوں اور  دیگر مصنوعات جس میں باالخصوص سمیٹکس  شامل ہیں ۔

اپنے مضمون میں انھوں نے لکھا ہے کہ اسٹیٹ بینک اور پاکستان بیورو آف سٹیٹسٹکس سے مرتب کردہ اعداد و شمار  2019 سے اب تک جوایسی قوم جو بے تحاشہ قرضوں کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے اس نے تقریبا غیر ضروری   مہنگی ترین اشیاء کو درآمد کیا اور غیر ضروری مہنگے ریستوران ،ہوٹل اور کھانے پینے پر خرچ کیا جو  مجموعی طورپر تقریبا 13 بلین  ڈالرہے ،فضول خرچی کی یہ شرح حیران کن ہونے کے ساتھ ساتھ ایک مجرمانہ عمل بھی   ہے اور وہ بھی ایسے  غریب ملک میں جو اپنے معاملات کو چلانے کےلئے بے پناہ اضافی قرض لےرہا ہے اور اپنی بقاء کی جدوجہد کر رہا ہے؟

اپنے  مضمون میں ہی انھوں نے  پاکستان کے اقتصادی بحران  کی وجوہات میں سے ایک وجہ یہ بیان کی کہ   پاکستان کے "ڈالر والے” اشرافیہ ان بحرانوں سے محفوظ ہیں جو ان کےغیر ضروری شوق کے جنون نے پیدا کیے ہیں۔ درحقیقت، جب بھی روپیہ کمزور ہوتا ہے، ان کے غیر ملکی کرنسی کے اثاثوں کی قدر میں اضافہ ہوتا ہے – جبکہ باقی قوم پر مہنگائی ٹیکس اور آئی ایم ایف پروگرام کی ایڈجسٹمنٹ کا بوجھ باقی رہ جاتا ہے ۔

انھوں نے لکھا کہ یہ طرز فکر اور پالیسی طرز عمل موجودہ تحریک انصاف کی حکومت   کا کارنامہ نہیں ہےبلکہ ماضی کی حکومتوں نے بھی اسی ناقص سوچ اور قابل اعتراض  پالیسی کا انتخاب کیا تھا ۔2004 سے 2007 کے درمیان کے جب شوکت عزیز کی سربراہی میں حکومت نے حقیقی ترقی پر ترجیح کے طور پر قرض کے پیسوں سے تعمیر ہونے والی خوشحالی کا فریب فراہم کیا۔   ‘لکژری گاڑیاں اور ملک میں غیر ملکی ریستورانوں کی فرنچائزز کا آغاز حکومتی پالیسی کے اہداف بن گئے، بجائے اس کے کہ بڑے شہری مراکز کے لیے ماس ٹرانزٹ سسٹم کی فراہمی، توانائی کے آنے والے بحران کے لیے تیاری، یا سماجی شعبوں میں سرمایہ کاری کی جاتی ہماری حکومتیں  غیر ضرور ی  منصوبوں پر قرض کی رقم خرچ کرنے لکیں ۔

انھوں نے مزید لکھا کہ بدقسمتی سے ہمارے پالیسی سازوں کے لیے اس نقطہ نظر کی غلط فہمی واضح نہیں رہی ایک اشرافیہ ہے جس پر کسی بھی طرح سے ٹیکس نہیں لگایا جاتا  جبکہ قوم اجتماعی طور پر ان وجہ اور فضول درآمدات پر خرچ ہونے والے اضافی زرمبادلہ کی متحمل نہیں ہو سکتی۔

متعلقہ تحاریر