چیئرمین نیب کے ناموں کی فیڈ بیک کا پروردہ کون؟

حکومت نے کسی بھی نام کی تردید کردی، ن لیگ نے صرف ایک نام کا اعتراف کیا۔ باقی نام کس کے کہنے پر سامنے آئے۔

چند دنوں سے یہ خبریں میڈیا کی زینت بن رہی ہیں کہ قومی احتساب بیورو (نیب) کے نئے چیئرمین کیلئے ممکنہ امیدواروں کی تلاش باضابطہ طور پر شروع ہوگئی ہے جبکہ حکومت اور اپوزیشن دونوں کی جانب سے کئی نام پیش بھی کئے جاچکے ہیں تاہم حکومتی سطح پر اور اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے ایسی کسی بھی اطلاع کی تردید کرتے ہوئے اسے محض افواہ قرار دیا گیا ہے۔

رواں ماہ کے اوائل میں وفاقی وزارت قانون و انصاف نے نیب کے نئے چیئرمین کی تقرری کیلئے عمل شروع کیا اور سمری منظوری کیلئے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کو بھجوائی۔ موجودہ چیئرمین جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کی مدت اکتوبر میں ختم ہو گئی تھی تاہم حکومت نے صدارتی آرڈیننس کے ذریعے ان کی مدت ملازمت میں توسیع کردی۔

یہ بھی پڑھیئے

مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کے درمیان ڈیل کی دوڑ

قومی احتساب آرڈیننس (این اے او) میں حالیہ ترامیم نے جسٹس اقبال کو اس وقت تک کام جاری رکھنے کی اجازت دی جب تک ان کا متبادل نہیں مل جاتا۔

حکومت سیکرٹری داخلہ یوسف نسیم کھوکھر، سیکرٹری مذہبی امور کیپٹن ریٹائرڈ سردار اعجاز احمد خان جعفر اور وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کے سابق ڈائریکٹر جنرل محمد عامش کے ناموں پر غور کر رہی ہے۔

دوسری طرف اپوزیشن جماعتوں کی چار رکنی کمیٹی نے ریٹائرڈ جسٹس دوست محمد خان، سابق بیوروکریٹس ناصر سعید خان کھوسہ، سلمان صدیق اور جلیل عباس جیلانی کو اس عہدے کے لیے تجویز کیا تھا۔

تاہم وزیراطلاعات فواد چوہدری نے ایسی پیش رفت کی تردید کی۔

ایک ٹویٹ میں وفاقی وزیر فواد چوہدری نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت نے اب تک چیئرمین نیب کے لیے کوئی نام تجویز نہیں کیا اور اس خبر کو غلط قرار دیا۔نئے چیئرمین نیب کے بارے میں مناسب مشاورت کے بعد فیصلہ چند دنوں میں کیا جائے گا۔

دریں اثنا وزارت قانون نے صدر علوی کو بھیجی گئی سمری میں نشاندہی کی کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں صدر کو نیب چیئرمین کی تقرری کے لیے وزیراعظم اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر سے مشاورت کرنی تھی۔

سابق وزیر اعظم اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنماء شاہد خاقان عباسی کی جانب سے بھی نجی ٹی وی کے ایک پروگرام میں نئے چیئرمین نیب کیلئے صرف ایک نام دیئے جانے کا اعتراف کیا گیا ہے۔

غورطلب امر یہ ہے کہ بنیادی طور پر حزب اقتداراور حزب اختلاف کی طرف سے تردید تو سامنے آگئی ہے تاہم ابلاغ عامہ میں نئے چیئرمین نیب کے ناموں کو کون پھیلارہا ہے؟اتنے حساس عہدے کیلئے بے جا نام سامنے آنا لمحہ فکریہ سے کم نہیں۔

آرڈیننس نے NAO کے سیکشن 6 کے ذیلی سیکشن بی میں ترمیم کرتے ہوئے قانون سے لفظ "نا قابل توسیع” کو خارج کرکے چیئرمین نیب کو توسیع دی تھی۔

سیکشن 5 کے مطابق ایک چیئرمین، قومی احتساب بیورو ہوگا، جس کا تقرر صدر قائد ایوان اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کی مشاورت سے کرے گا۔

اگرچہ بامعنی مشاورت مکمل کرنے کا کوئی ٹائم فریم نہیں تھا لیکن اگر صدر کو لگتا ہے کہ وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر کسی نام پر اتفاق رائے نہیں کر سکے تو وہ معاملہ پارلیمانی کمیٹی کو بھیج سکتے ہیں۔

این اے او کے سیکشن 5 کی شق (ii) میں کہا گیا ہے کہ کمیٹی قومی اسمبلی کے اسپیکر کی طرف سے تشکیل دی جائے گی جس میں 50 فیصد ارکان ٹریژری بنچوں سے ہوں گے اور باقی اپوزیشن کی مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) میں ان کی طاقت کی بنیاد پر ہوں گے اور چیئرمین نیب کو متعلقہ پارلیمانی رہنماؤں کے ذریعے نامزد کیا جائے گا۔

شق (iii) میں کہا گیا ہے کہ پارلیمانی کمیٹی چیئرمین کے طور پر تقرری کے لیے کسی بھی نام کی تصدیق کر سکتی ہے۔

ترمیم شدہ این اے او کے مطابق پارلیمانی کمیٹی کی کل تعداد 12 ہو گی جن میں سے ایک تہائی سینیٹ سے ہو گی۔

متعلقہ تحاریر