مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کے درمیان ڈیل کی دوڑ

ن لیگ اور پی پی کی لیڈر شپ اپنے اپنے بیانیے میں اس بات کو آشکار کررہی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ انہیں اقتدار دینے کےلیے بے قرار ہے۔

پاکستان کی دو بڑی سیاسی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کی لیڈرشپ کی جانب سے بیانات کی جنگ جاری ہے جس میں یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ ان کی اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل ہوگئی ہے اور حکومت ان کو ملنے والی ہے۔

مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما اور سابق اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے 23 دسمبر کو خواجہ سعد رفیق کے والد کی برسی کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ 20 جنوری کو لندن جا رہا ہوں اور میاں نواز شریف کو ساتھ لے کر لوٹوں گا۔ ان کا کہنا تھا کہ لوگوں نے ہاتھ کھڑے کردیے ہیں ، گڈ گورننس بیڈ گورننس میں تبدیل ہو گئی ہے۔ نواز شریف کو انصاف ملنے کا وقت آگیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

آصف علی زرداری کی شہراقتدار میں اہم ملاقاتیں

حکومت دہشتگردوں سے ڈیل کی بھیک مانگ رہی ہے، بلاول بھٹو زرداری

اپنے والد کی برسی کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کے رہنما خواجہ سعد رفیق کا کہنا تھا کہ بہت جلد عمران خان کی سیاست کا جنازہ نکلنے والا ہے۔ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کو سیاسی جدوجہد کے لیے اکٹھے ہونا پڑے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں حکومت ملنے والی ہے مگر ہم اقتدار میں آکر کسی سےبدلہ نہیں لیں گے۔

گذشتہ دنوں ایک ٹی وی شو میں گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیراعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ الیکشن جب ہوں مسلم لیگ (ن) کی جانب سے وزارت عظمیٰ کے امیدوار شہباز شریف ہی ہوں گے۔

23 دسمبر کو خواجہ محمد رفیق کے 49ویں یوم شہادت کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں محمد نواز شریف نے اپنے خطاب کے دوران پی ٹی آئی کی حکومت پر کھل کر تنقید کی اور ایسا تاثر دیا کہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ان کے معاملات ٹھیک ہوگئے اور انہوں نے اپنے خطاب کے آخر میں کہا کہ بہت جلد پاکستانی عوام کے درمیان موجود ہوں گا۔

مسلم لیگ (ن) کے ایک اور سینئر رہنما رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ بہت جلد میاں محمد نواز شریف ملک میں واپس آرہے ہیں اور جلد ملک کی بھاگ دوڑ مسلم لیگ (ن) کے ہاتھوں میں ہوگی۔ نواز شریف واپس آرہے ہیں سونامی لانے والوں کی چیخیں نکل رہی ہیں۔ عمران خان نیازی ، شیدا ٹلی اور کرائے کے ترجمانوں کو چھپنے کی جگہ نہیں ملے گی۔

دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی کے کو چیئرمین آصف علی زرداری اپنے بیانات میں ایسے تاثرات دے رہے ہیں کہ جیسے ان کی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ڈیل ہوگئی ہے اور پیپلز پارٹی برسراقتدار آنے والی ہے۔

20 دسمبر کو نوابشاہ میں خطاب کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے کوچیئرمین آصف علی زرداری کا کہنا تھا کہ "ہم سے فرمایا جارہا ہے کہ آپ آئیں اور ہمیں کوئی فارمولا دیں۔ میں ان سے کہا ہے کہ فارمولا بنا بنا کر اس ملک بیڑا غرق کردیا ہے ۔ اگر ہم سے کوئی فارمولا لینا ہے تو پہلے اس کو فارغ کریں۔

اس طرح 23 دسمبر کو ٹنڈو الہٰ یار میں پیپلزپارٹی کے کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے آصف علی زرداری کا کہنا تھا کہ لاہور اور اسلام آباد میں احتجاج کرکے مخالفین کا مقابلہ کروں گا۔ انہوں نے ملک کو نانی کا کنبہ بنا رکھا ہے جو کبھی کسی روپ میں آجاتا ہے تو کبھی کسی روپ میں مسلط ہو جاتے ہیں۔

آج نیوز کے پروگرام روبرو کے اینکر پرسن شوکت پراچہ سے گفتگو کرتے ہوئے سینیٹر عبدالرحمان ملک کا کہنا تھا موجودہ حکومت اپنی اہمیت کھوتی جارہی ہے ، زیادہ وقت نہیں ہے ہم دوبارہ آرہے ہیں ، ہمارے پاس ایک بہترین نوجوان لیڈر بلاول بھٹو زرداری ہیں۔

ادھر گذشتہ دنوں پارٹی ترجمان کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ خود ساختہ جلاوطن نواز شریف کی سزا ختم کرکے واپس لانے کے راستے تلاش کیے جارہے ہیں۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ سابق وزیراعظم نواز شریف نے اپنے دور اقتدار میں عوام کا پیسہ لوٹا اور ملک سے باہر منتقل کیا۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ اگر سزایافتہ مجرموں کو چھوڑنا ہے تو پھر جیلوں کے دروازے کھول دینے چاہئیں۔ پاناما لیکس میں نام آنے پر نواز شریف کو نااہل قرار دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر ایسا ہوا تو سزا یافتہ شخص چوتھی مرتبہ ملک کا وزیراعظم بن جائے گا۔

سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے میاں نواز شریف کی ڈیل کس سے ہورہی ہے وہ نام کیوں نہیں بتاتے ، آصف علی زرداری صاحب کھل کر بات کریں کہ انہوں نے نانی کا کنبہ کس کو کہنا ہے۔ آصف زرداری صاحب نے تو کھل کر بات کی ہے کہ ہم سے فارمولا مانگا جارہا ہے۔ اگر ان سے فارمولا مانگا جارہا ہے تو  کس نے مانگا ہے اس کا نام زبان پر کیوں نہیں آتا ہے۔

سیاسی تجزیہ کاروں  کا کہنا ہے کہ نواز شریف اور آصف علی زرداری صاحبان حکومت پر تنقید کرتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ڈیل کا تاثر پیش کررہے ہیں ، یہ درست ہے کہ حکومت کی کارکردگی اچھی نہیں ہے ، مہنگائی ہے ، بے روزگاری ہے ۔ مگر جب آپ اسٹیبلشمنٹ کو بلاوجہ گھسیٹیں گے  تو اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کی ساری جماعتیں اسٹیبلشمنٹ کی مرحون منت ہیں ، اگر واقعی ہی اسٹیبلشمنٹ کا کوئی ہاتھ ہے تو پھر حکومت پر تنقید کیوں؟ اور اگر اسٹیبلشمنٹ کا حکومتوں کو لانے اور نکالنے میں کوئی کردار نہیں تو پھر نواز شریف اور آصف زرداری کو اپنے کہے گا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔

متعلقہ تحاریر