سپریم کورٹ کے فیصلے پر مولانا فضل الرحمان کی سخت تنقید
چیف جسٹس گلزار احمد نے گذشتہ سال تجاوزات کیس میں 28 دسمبر کو طارق کو قائم مسجد کی جگہ پارک کو بحال کرنے کا حکم دیا تھا۔
جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے ایک سابقہ چیف جسٹس نے مغرب کو خوش کرنے کے لیے ناموس رسالت ﷺ کے مرتکب شخص کو چھوڑنے کا حکم تھا اور اب جانے والے چیف جسٹس نے مغرب کو خوش کرنے کے لیے مساجد کے انہدام کا حکم دے رہے ہیں۔
مولانا فضل الرحمان کی حکومت پر تنقید
جے یو آئی (ف) کے سربراہ نے حکومت پر کھلی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اب یہ لوگ کہیں گے ہمارا تو یہ ارادہ بھی نہیں تھا ، ہم تو رحمت العالمینﷺ اتھارٹی بنا رہے ہیں ، ہم تو ریاست مدینہ اتھارٹی بنا رہے ہیں ، جب کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے ۔ تمہارا ہی ایجنڈا تھا کہ ناموس رسالت ﷺ قانون ختم کریں گے، تمہارا ایجنڈا تھا کہ آئین سے عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کا شق ختم کریں گے۔ تمہارا ایجنڈا اب بھی یہی ہے کہ دینی مدارس کو ختم کیا جائے۔
معاشرے میں پہلے سے لگی آگ کو مزید ہوا دیتے یہ صاحب جمہوریت کی بحالی اور قانون کی بالادستی کے لئے چلائی جانے والی مہم کے مبینہ امام ہیں ۔ pic.twitter.com/m3jxBFgSai
— Awais Saleem (@awaissaleem77) January 2, 2022
یہ بھی پڑھیے
عمران خان 5 سالہ مدت مکمل کرنے والے پہلے وزیراعظم بنیں گے، اعزاز سید
ڈی جی کے ڈی اے کو گرفتار کرنے والا اینٹی کرپشن افسر معطل
سربراہ جے یو آئی (ف) کی سپریم کورٹ کے سابقہ اور موجودہ چیف جسٹس پر تنقید
مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا سپریم کورٹ مساجد کے انہدام کے فیصلے دی رہی ہے اگر آپ لوگ ایسا نہیں کرسکے تو یاد رکھیں یہ فقیروں کی قربانیوں کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے سڑک پر کھڑے ہو کر آپ کو چیلنج کیا ، کہ تمہارا باپ بھی ایسا نہیں کرسکتا۔ ہم جج کا احترام کرتے ہیں ، قابل احترام جج صاحب ، پہلے جج صاحب نے جاتے جاتے فیصلہ کیا تاکہ مغرب کے لیے قابل قبول ہوسکیں۔ انہوں نے ناموس رسالتﷺ کی توہین کے مرتکب شخص کو آزاد کردیا اور مغرب میں جگہ حاصل کرلی ۔ پاسپورٹ بھی مل گئے گھر بھی مل گئے ، آسائشیں بھی مل رہی ہیں۔ آپ بھی جاتے جاتے مساجد کو گرانے کا فیصلہ دے رہے ہیں۔ تاکہ آپ مغرب کے لیے قابل قبول ہوسکیں اور پھر کہتے ہیں ہم نے تو قانون کے مطابق فیصلہ کیا ہے ۔ پہلے مقدمہ تو چلاؤ ، ثابت تو کرو کہ یہ مسجد غاصب زمین پر ہے۔ ان کے پاس اسناد ہیں کہ آپ ہی کے ادارے نے ان کو این او سی جاری کیا تھا تب جاکر مسجد تعمیر ہوئی۔ اور اگر غصب شدہ زمین پر بھی ہو تب بھی مسجد بن جانے کے بعد گرائی نہیں جاسکتی ، ہاں اس کا تاوان دیا جاسکتا ہے۔
یاد رہے کہ گذشتہ 28 دسمبر کو سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں طارق روڈ پر قائم مدینہ مسجد کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے چیف جسٹس گلزار احمد نے ایڈمنسٹریٹر کراچی کو ایک ہفتے میں مسجد کی جگہ پارک بحال کرنے کا حکم دیا تھا۔