زینب الرٹ بل کی منظوری، کراچی میں ایک اور بچہ جنسی زیادتی کا شکار

متاثرہ بچے کے والد نوید کا کہنا ہے اسکول انتظامیہ نے میرے ساتھ تعاون نہیں کیا بلکہ الٹا مجھے پریشررائز کیا کہ میں معاملے کو طول نہ دوں۔

قومی اسمبلی سے زینب الرٹ بل کی منظوری کے باوجود بچوں اور بچیوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات رک نہیں سکے۔ صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی کے علاقے گلستان جوہر میں قائم "ملینیم روٹس اسکول” میں 4 سالہ بچے کو مبینہ طور پر جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ ڈی جی پرائیویٹ انسٹیٹیوشن منسوب صدیقی آج اسکول کا دورہ کریں گے۔

بچے کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعے کا مقدمہ گلستان جوہر تھانے میں متاثرہ بچے کے والد کی مدعیت میں درج کرایا گیا جس کے بعد پولیس نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے ایک ملزم کو گرفتار کرلیا۔

یہ بھی پڑھیے

سکھر میں ترقیاتی کام ٹھپ، سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار، شہری مشکلات کا شکار

رینجرز اور پولیس شادی ہالز میں کورونا ایس او پیز کا جائزہ لے گی

ذرائع کا کہنا ہے کہ سکول میں کام کرنے والے سویپر نے 4 سالہ معصوم بچے کے ساتھ مبینہ طور پر جنسی زیادتی کی۔

ذرائع کے مطابق جب بچے کے والد نوید سکول پہنچے تو سکول انتظامیہ نے ملزم کو بھگانے کی کوشش کی اور بچے کے والد پر دباؤ ڈالا کہ وہ سکول کی ساکھ کی خاطر معاملے کو اجاگر نہ کریں۔

تھانہ گلستانِ جوہر نے برقت ایف آئی آر کا اندراج کیا اور دفع 511/377 کے تحت مقدمہ درج کر کے ایک ملزم کو گرفتار کرلیا۔

Karachi Gulistan Johar Child sexual abuse

متاثرہ بچے کے والد نوید نے میڈیا کو بتایا کہ اسکول انتظامیہ نے میرے ساتھ تعاون نہیں کیا بلکہ الٹا مجھے پریشررائز کیا کہ میں معاملے کو طول نہ دوں۔

انویسٹی گیشن آفیسر طاہر کا کہنا ہے کہ انہیں 15 پر کال موصول ہوئی تھی جس پر پولیس فوری طور پر اسکول پہنچی اور ایک ملزم کو گرفتار کرلیا جو وہاں صفائی وغیرہ کا کام کرتا ہے۔

انویسٹی گیشن آفیسر طاہر نے بتایا کہ ملزم کا مجسٹریٹ سے دو دن کا ریمانڈ لے لیا گیا ہے، اور تفتیش جاری ہے۔

دوسری جانب ڈی جی پرائیویٹ اسکولز محمد منسوب صدیقی آج انسپیکشن ٹیم کے ہمراہ ملینیم روٹس اسکول کا دورہ کریں گے ، وہ متاثرہ بچے کے والدین اور اسکول انتظامیہ سے ملاقاتیں کریں گے۔

ڈی جی پرائیوٹ اسکولز محمد منسوب صدیقی کا کہنا ہے کہ انسپکشن ٹیم کی رپورٹ کی روشنی اقدامات لیے جائیں گے۔

اس سے قبل سندھ کے ضلع خیرپور میں کانا سچدیو نامی پانچویں جماعت کی طالبہ کو زیادتی کے بعد قتل کر دیا گیا تھا۔ جس کی لاش اسکول کے قریب واقع ایک خالی گھر سے ملی تھی۔

مقامی پولیس نے موقع پر پہنچ کر لاش کو قبضے میں لے کر پوسٹ مارٹم کے لیے سول اسپتال خیرپور منتقل کردیا تھا، جہاں پوسٹ مارٹم رپورٹ سے ثابت ہوا تھا کہ بچی کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔

سماجی شخصیات کا کہنا ہے کہ اس ملک کو کیا ہوتا جارہا ہے جس جگہ بچوں اور بچیوں کی اخلاقیات کو پروان چڑھایا جاتا ہے، جہاں اساتذہ اور انتظامیہ طالب علموں کو اعلیٰ اخلاقی اقدار سکھاتے ہیں وہاں پر ایسے قبیح کام کا ہونا باعث شرم اور باعث افسوس ہے۔ اس طرح کی اخلاق باختہ حرکتیں اگر اسکولز اور دیگر تعلیمی اداروں میں ہوں گی تو کون والدین ہوں گے جو اپنی بچوں کو اسکول بھیجیں گے۔ تالاب میں ایک گندی مچھلی سے سارا تالاب گندہ ہو جاتا ہے ۔ اسکولوں کی انتظامیہ کو چاہیے کہ جب بھی کسی شخص کو اپنے پاس ملازمت پر رکھیں ، پہلے اس کی مکمل تفصیلات حاصل کریں اور اس کے ساتھ ساتھ اس کی اخلاقی تربیت بھی کریں تاکہ معاشرے میں پھیلتی ہوئی برائی کو روکا جاسکے۔

متعلقہ تحاریر