ملک کی  سب سے بڑی سیاسی جماعت ن لیگ کو سیاسی بیساکھیوں کی تلاش

سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے ن لیگ اور پیپلز پارٹی کا بنیادی مقصد ایم کیو ایم اور مسلم لیگ (ق) کو آن بورڈ لینا ہے تاکہ حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی جائے اور انہیں گھر بھیجا جائے۔

ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت مسلم لیگ (ن) جس کی قومی اسمبلی میں 80 سے زیادہ نشستیں ہیں ، جس کے پاس پنجاب اسمبلی میں 160 سے زیادہ سیٹیں ہیں اور جو سینیٹ کی 5 سیٹوں پر براجمان ہے، اس سب کے باوجود ن لیگ کی اپنی کوئی سیاست کہیں دکھائی نہیں دے رہی ہے، اور سیاسی بیساکھیوں کی تلاش میں سرگرداں ہے جبکہ ان کے قائد میاں نواز شریف کا بیانیہ بھی چلتا ہے۔

مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے دو روز قبل پاکستان پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت سے ملاقات کی مگر وہ اپنے مقاصد حاصل کرنے میں بری طرح ناکام ہوئے۔ ذرائع کے مطابق دونوں جماعتوں میں اس بات پر اتفاق ہوا کہ آصف علی زرداری ، پرویز الہیٰ سے ملاقات کریں گے اور انہیں حکومت کے خلاف اپنا اتحادی بنانے کی کوشش کریں جبکہ شہباز شریف ، ایم کیو ایم کی قیادت سے ملاقات کرکے انہیں حکومت کے خلاف عدم اعتماد کے لیے راضی کریں گے۔

نواز شریف مسلم لیگ ن پیپلز پارٹی
twitter

یہ بھی پڑھیے

بلوچستان میں دہشتگرد حملوں کے باوجود بلاول بھٹو زرداری کا جلسہ

پیپلز پارٹی سے ملاقات کے بعد مسلم لیگ (ن) مزید مشکلات کا شکار

گذشتہ روز سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے کوچیئرمین آصف علی زرداری نے مسلم لیگ ق کے سربراہ پرویز الہیٰ سے ملاقات کی ، اور انہیں حکومت کے خلاف عدم اعتماد لانے کے لیے راضی کرنے کی کوشش کی اور اس کے بدلے میں پنجاب کی وزارت اعلیٰ کی بھی پیشکش کی ، جسے مسلم لیگ ق کے صدر پرویز الہیٰ نے معذرت کے ساتھ ریجیکٹ کردیا ہے۔

Major political party PML-N
reporter news 360

دوسری جانب مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف آج ایم کیو ایم (پاکستان) کی قیادت سےملاقات کریں گے اور انہیں حکومت کے خلاف تحریک اعتماد لانے پر قائل کریں گے، جس کے بدلے میں ایم کیو ایم کو سندھ مختلف قسم کی وزارتوں کی پیشکش بھی کی جائے گی۔

بنیادی طور پر پلان یہ ہے کہ کسی طرح ایم کیو ایم اور مسلم لیگ ق کو آن بورڈ لیا جائے اور حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرکے حکومت کو گھر بھیجا جائے۔

گذشتہ روز مسلم لیگ (ن) کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس شہباز شریف اور نواز شریف کی زیرصدارت ہوا۔ جس میں کوئی واضح حکمت عملی طے نہیں ہوسکی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ سی ای سی کے میٹنگ کے دوران ایک سینئر ممبر نے اٹھ کر یہاں تک کہہ دیا ، کہ ہم قومی اسمبلی سے استعفے دے دیتے ہیں مگر اس سے پہلے میاں نواز شریف صاحب کو پاکستان میں آکر سیاست کرنا ہو گی۔

ن لیگ کی سی ای سی میٹنگ میں حکومت کے خلاف کوئی واضح حکمت عملی طے نہیں ہو سکی مگر مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر پیغام شیئر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ” عوام کی حالت زار اور حکومت کی نااہلی اور ہر میدان میں ناکامی کو مدنظر رکھتے ہوئے پارٹی میں اس بات پر اتفاق ہے کہ عمران خان (آئی کے) حکومت کو جانا ہے۔ ان کے رہنے سے ہر گزرتے دن کے ساتھ لوگوں کی مشکلات میں اضافہ ہورہا ہے۔ کسی ایک رکن نے بھی اختلاف نہیں کیا۔”

مریم نواز کی چٹکی لیتے ہوئے معاون خصوصی شہباز گل نے ٹوئٹ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ” مریم صاحبہ پوری بات بھی بتایا کریں۔ان دو لوگوں کا بھی بتائیں جنہوں نے آج کی میٹنگ میں یہ کہا ہے کہ وہ استعفے دینے کو تیار ہیں لیکن شرط ہے کہ میاں صاحب خود پاکستان میں واپس آ کر پارٹی لیڈ کریں۔ ان کی اس بات پر ان دونوں کو چپ کروا دیا گیا۔ اور ان کا مائیک میوٹ کر دیا گیا۔”

وفاقی وزیر فواد چوہدری نے مریم نواز کو چھیڑتے ہوئے لکھا ہے کہ ” آپ ایک تحریک چھوڑ دس لائیں لیکن مقصود پٹواری کے اکاؤنٹ میں چار ارب کب کہاں اور کیسے آئے میاں جی کو بتانا پڑے گا، زرداری بھی دوڑ لگا لیں اور میاں جی بھی کسی طور بھی پیسے معاف نہیں ہونے قوم کا پیسہ ہے قومی خزانے میں جائیگا۔۔ پوری قوم عمران خان کے ساتھ کھڑی ہے اور ساتھ رہے گی۔”

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پنجاب کے اندر آصف علی زرداری مسلم لیگ ق کو رام کرنے کی کوشش کررہی ہے جبکہ شہباز شریف ایم کیو ایم کو منانے کی کوشش کریں گے۔ مگر حالات یہ بتاتے ہیں کہ پرویز الہیٰ ، وزیراعلیٰ پنجاب نہ ہونے کے باوجود بھی وہ سارے کام کروا رہے ہیں جن کی ان کو ضرورت ہوتی ہے ان کے کہنے پر بیوروکریسی میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں ہوجاتی ہیں۔ وہ ڈائریکٹ نہ سہی ان ڈائریکٹ وزیراعلیٰ پنجاب ہی ہیں اس لیے انہوں نے آصف علی زرداری کو ہری جھنڈی دکھا دی ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پنجاب کے اندر لوکل گورنمنٹ الیکشن آرہے ہیں اور تمام نظریں پرویز الہیٰ پر جمی ہوئی ہیں۔ گذشتہ روز  ہی ن لیگ کے ایک بڑے پرانے ساتھی الحاج فاروق امجد نے ق لیگ میں شمولیت اختیار کی ہے۔ اس لیے ق لیگ اس وقت کوئی ایسی سیاسی غلطی نہیں کرے گی کہ اسے بلدیاتی انتخابات میں سیٹ بیک آئے۔ دوسری جانب ایم کیو ایم بھی اپوزیشن کا ساتھ نہیں دے گی ، کیونکہ اسے پتا ہے کہ لوکل گورنمنٹ ایکٹ میں ترمیم کے بعد وہ بیک فٹ پر چلے گئی ہے ، اس لیے وہ اپنے مفادات کو ترجیح دیتے ہوئے پی ٹی آئی حکومت کے ساتھ ہی رہیں گے ، اور اس طرح مقتدر حلقوں کی نظروں میں بھی منظورنظر رہے گی۔

ن لیگ کی سیاست کے حوالے سے سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ن لیگ اس مخمصے کا شکار ہے اسے کچھ سمجھ نہیں آرہی کہ حالات کو کیسے کنٹرول کرنا ہے۔ انہیں معلوم ہی نہیں ہے کہ انہیں تحریک عدم اعتماد لانی ہے یا اسمبلیوں سے استعفے دینے ہیں۔

متعلقہ تحاریر