باحجاب بھارتی طالبہ مسکان دنیا بھر میں مزاحمت کی علامت بن گئی

بھارت میں مسلمانوں کی نسل کشی کے مطالبات مرکزی دھارے  کی طرف بڑھ رہے ہیں،نیویارک ٹائمز: نسل کشی دہلیز پرکھڑی ہے،ترقی پسند نیک نیت ہندوؤں کو اپنے اندر کی نفرت کو ختم کرنا ہوگا، بھارتی فلمساز: جمعیت علمائے ہند کا مسکان کیلیے 5 لاکھ روپے انعام کا اعلان

بھارتی  ریاست کرناٹک کے دارالحکومت بنگلو رکے پی  ای ایس  کالج میں انتہاپسندوں  کے جتھے نے باحجاب  طالبہ مسکان  خان کو کالج میں جانے سے روکا جس پر طالبہ ڈرنے کے بجائے ڈٹ گئی اور دنیا بھر میں مزاحمت کی علامت بن گئی۔

بھارتی میڈیا کے مطابق واقعہ منگل کو پیش آیا۔  گلے میں گیروی رنگ کے مفلر ڈالے 100سے انتہا پسندوں   کے جتھے نے اسکوٹی پر سوار بی کام کی طالبہ مسکان خان کو حجاب پہننے پر کالج میں داخلے سے روکنے کی کوشش کی اور جے شری رام کے نعرے لگائے۔جواب میں طالبہ انتہاپسندوں کے سے ڈرنے کے بجائے ڈٹ گئی اور اللہ اکبر کے نعرے بلند کردیے۔

یہ بھی پڑھیے

ہندو تنظیموں نے طالبعلموں کو زعفرانی شال پہننے کی ہدایت کردی

فرانس کی اسلام مخالف ایک اور سازش

کالج  کے پرنسپل اور پروفیسرز نے طالبہ کو انتہاپسندوں کے جتھے سے بچایا اور کالج کے اندر لے گئے۔بعدازاں انتہاپسندوں نے کالج کا گھیراؤ کرکے جے شری رام کے نعرے لگائے اور عمارت پرپتھراؤ کیا۔

بھارتی میڈیا کے مطابق گیروے رنگ کے مفلر پہنے طالب علموں نے کالج کے دروازے پر اپنا تعارف ’آکھل بھارتیہ ودیارتھی پرشاد‘ (اے بی وی پی) کے اراکین کے طور پر کرایا۔واقعے کی وڈیو جنگل کی آگ کی طرح پورے ہندوستان اور پاکستان میں سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی  اور ٹوئٹر پر طالبہ کے حق میں اللہ اکبر،مسکان، حجاب رو سمیت نصف درجن ہیش ٹیگس ٹرینڈ کرنے لگے جبکہ طالبہ سے اظہار یکجہتی کیلیے  درجنوں میمز بھی شیئر کیے جانے لگے۔

 

حجاب مسلمان لڑکی کی شناخت کا معاملہ ہے،جدوجہد جاری رکھیں گے، مسکان

طالبہ مسکان خان  نے بھارتی نیوز چینل این ڈی ٹی وی کو انٹرویو میں واقعے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ میں تو صرف اسائنمنٹ جمع کروانے گئی تھی، لیکن چونکہ میں نے برقع پہن رکھا تھا اس لیے وہ مجھے کالج میں داخل نہیں ہونے دے رہے تھے، مجھے دیکھتے ہی انہوں نے میرا راستہ روکنے اور جے شری رام کے نعرے لگانے شروع کر دیے، جس کے بعد میں نے بھی اللہ اکبر کا نعرہ لگایا۔

مسکان کے مطابق وہ ہمیشہ سے برقع پہن  کر کالج آتی تھیں، مگر کلاس میں جا کر وہ برقع اتار کر صرف حجاب پہن لیتی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ ان کے پرنسپل نے اس پر کبھی اعتراض نہیں کیا اور یہ سب ہنگامہ آرائی گزشتہ ہفتے شروع ہوئی ہے۔

مسکان کے مطابق ان کے کالج کے پروفیسر اور پرنسپل نے ان کی حفاظت اور حمایت کی ہے اور وہ سمجھتی ہیں کہ انھیں ہراساں کرنے والے ان طلبا کی اکثریت باہر سے آئی تھی اور صرف 10 فیصد کالج کے طلبا ان میں شامل تھے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری ترجیح ہماری تعلیم ہے، کپڑے کے ایک ٹکڑے کے پیچھے وہ ہمیں تعلیم کے حق سے محروم کر رہے ہیں۔

اس سوال پر کہ کیا جب اتنی زیادہ تعداد میں ہراساں کرنے والوں نے انھیں گھیر لیا تو کیا وہ خوفزدہ نہیں ہوئیں؟ مسکان نے بتایا  کہ نہیں میں بالکل پریشان نہیں ہوئی،نہ اب  پریشان  ہوں، صبح سے اب تک پولیس سے لے کر باقی سب لوگ مجھے آ کر بتا رہے ہیں کہ ہم تمھارے ساتھ ہیں، باکل پریشان نہیں ہونا۔

میزبان نے سوال کیا کہ اگر آپ کو حجاب پہن کر کالج آنے سے منع کیا جاتا ہے تو کیا آپ  اپنی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھ پائیں گی؟ مسکان کا کہنا تھا کہ حجاب ہماری شناخت کا حصہ ہے۔ پرنسپل نے کبھی کچھ نہیں کہا۔ یہ سب باہر والوں نے شروع کیا ہے۔ پرنسپل نے ہمیں برقع نہ پہننے کا مشورہ دیا ہے۔ ہم حجاب کے لیے احتجاج جاری رکھیں گے۔ یہ ایک مسلمان لڑکی کی شناخت کا حصہ ہے۔

حجاب پرپابندی کا شوشا کس نے چھوڑا؟

بھارت میں مسلمان طالبات کے حجاب لینے پر پابندی کا شوشہ کرناٹکا کے ساحلی شہر اڈوپی کے مہاتما گاندھی میموریل کالج  کے استاد نے چھوڑا۔28 دسمبر کو سرکاری کالج کی 6 طالبات کلاس لینے پہنچیں  تو ٹیچر نے  انہیں حجاب کرنے کے باعث اندر داخل ہونے سے روک دیا، طالبات گھر جانے کے بجائے وہیں کالج کی سیڑھیوں پر بیٹھ گئیں اور سلسلہ ایک ہفتے تک چلتا رہا، طالبات کلاس لینے جاتیں استاد انہیں باہر نکال دیتا اور پھر وہ گھر جانے کے بجائے سیڑھیوں بیٹھ جاتیں اور ایک  ہفتے بعد 6 میں سے 5طالبات نے حجاب پر پابندی کیخلاف عدالت سے رجوع کرلیا   لیکن حجاب پر پابندی کا سلسلہ کرناٹکا سمیت دیگر بھارتی ریاستوں تک پھیل گیا جس پر مسلمان طالبات نے پورے کرناٹکا میں احتجاج شروع کردیا۔

ہندو طلبہ و طالبات میں گیروے رنگ کے مفلرز کی تقسیم

مسلمان طالبات کے احتجاج کو زائل کرنے کیلیے نفرت کے سودا گر انتہاپسند سیاسی رہنمامیدان میں آگئے اور ہندوطلبہ و طالبات کو باقاعدہ نفرت کی تبلیغ شروع کردی۔انتہاپسند سیاسی رہنماؤں ہندو طلبہ وطالبات کو گیروے  رنگ کے مفلر پاس رکھنے کی ہدایت کردی ۔

بھارتی  صحافی نویدیتا نرینجن کمار کی جانب سے پوسٹ کی گئی ایک وڈیو میں ایم جی ایم کالج کے طلبا کو زعفرانی شالیں اٹھاتے دیکھا جا سکتا ہے۔

نودیتا کے مطابق مبینہ طور پر ہندوتوا تنظمیوں نے یہ شالیں تقسیم کی ہیں۔نویدیتا نے ایم جی ایم کالج میں حجاب تنازع پر ہونے والے ہنگاموں کی کئی ویڈیوز اور تصاویر پوسٹ کی ہیں جن میں برقعوں اور حجاب کے خلاف سیکڑوں زعفرانی شالیں اور ٹوپیاں پہنے طلبا اور طالبات ’جے شیوا جی‘ کے نعرے لگا رہے ہیں۔ایسی ہی ایک اور تصویر میں ایم جی ایم کالج کی اساتذہ حجاب پوش طالبات کو سکول سے باہر نکل جانے کا کہہ رہی ہیں۔

بھارت سمیت دنیا بھر میں مسکان خان  سے اظہار یکجہتی کا سلسلہ جاری

بھارتی طالبہ کی وڈیو وائرل ہونے کے بعد دنیا بھر سے اس کے حق میں آوازیں اٹھ رہی ہیں۔نوبل انعام یافتہ پاکستانی طالبہ ملالہ یوسفزئی نے  بھارت میں حجاب کی وجہ سے لڑکیوں پر تعلیمی اداروں کے دروازے بند ہونے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

ملالہ یوسف زئی نے اپنے ٹوئٹ میں کرناٹک میں حجاب کی وجہ سے مسلمان طالبات پر تعلیم کے دروازے بند ہونے کو خوفناک قرار دیا۔

ملالہ یوسفزئی نے ٹویٹر پرمسکان کا انٹرویو شیئر کرتے  ہوئے لکھاکہ باحجاب لڑکیوں کو اسکول میں داخل ہونے سے روکنا خوفناک عمل ہے، کم یا زیادہ کپڑے پہننے کی صورت میں خواتین کو ایک چیز سمجھنے کا رحجان اب بھی موجود ہے۔ بھارت کے حکمران ذہنی پسماندگی ختم کر کے مسلم خواتین کو دیوار کے ساتھ لگانے کے عمل کو فوری روکیں۔

بھارتی اپوزیشن جماعت کانگریس کی رہنما پریانکا گاندھی نے اپنے  ٹوئٹ میں لکھا کہ  عورت کی مرضی ہے کہ وہ بکنی پہننا چاہتی ہے یا جینز،گھونگھٹ لینا چاہتی ہے یا حجاب، بھارتی آئین اسے یہ حق  دیتا ہے، عورتوں کو ہراساں کرنا بند کروں ۔انہوں نے لڑکی ہوں لڑ سکتی ہوں کا ہیش ٹیگ بھی استعمال کیا۔

بھارتی اداکارہ و ہدایت کارہ پوجا بھٹ نےواقعے کی ویڈیو پوسٹ کرتے ہوئے لکھا  کہ ہمیشہ کی طرح ایک عورت کو دھمکانے کے لیے آدمیوں کے جتھے کی ضرورت پڑی ہے۔

پوجا بھٹ نے مزید لکھا کہ گیروی  شالوں کو ہتھیار کے طور پر لہراتے، اپنی کمزوری کو ظلم سے چھپانے کی کوشش کرتے یہ لوگ انسانوں کی توہین ہیں۔ انہوں نے مزید لکھاپو کہ  بھٹکی ہوئی نسل کا ایک بڑا حصہ نفرت کی بھینٹ چڑھ چکا ہے۔

مقبوضہ کشمیر کی سابق  کٹھ پتلی وزیرِ اعلیٰ محبوبہ مفتی نے اپنے ٹوئٹ میں لکھا کہ ایک مسلمان لڑکی کو دن دیہاڑے بنا کسی خوف کے ہراساں کرنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ ایسے غنڈوں کو حکومت میں موجود لوگوں کی سرپرستی حاصل ہے۔ ایسے واقعات کو محض ایک واقعے کے طور پر نہیں دیکھا جانا چاہیے کیونکہ بی جے پی کو امید ہے کہ ایسے واقعات انھیں یو پی کے انتخابات جیتنے میں مدد دیں گے۔

مقبوضہ کشمیر کے ایک اور  سابق  کٹھ پتلی وزیرِ اعلیٰ عمرعبداللہ نے بھی واقعے کی مذمت کرتے ہوئے  لکھا کہ آج کے انڈیا میں مسلمانوں سے نفرت کو ایک عام سی بات بنا دیا گیا ہے۔ ہم اب وہ قوم نہیں رہے جو متنوع ہونے کا جشن مناتی ہے، اب ہم لوگوں کو الگ کرنا اور انھیں سزا دینا چاہتے ہیں۔

بھارتی فلمسازنیرج گھیوان نے اپنے ٹوئٹ میں لکھا کہ  نسل کشی دہلیز پرکھڑی ہے، یہ صرف مسلمانوں (اور دلتوں) پر نہیں ہے کہ وہ اپنی حفاظت کریں۔ ترقی پسند نیک نیت ہندوؤں کو اپنے اندر کی نفرت کو ختم کرنا ہوگا، جوابدہی اور زبردست کارروائی کا مطالبہ کرنا ہوگا!آپ کی خاموش علیحدگی بے معنی ہے۔

بھارتی اداکارہ سوارا بھاسکر نے واقعے کی وڈیو شیئر کرتے ہوئے صورتحال کو شرمناک قرار دیا۔سوارا بھاسکر نے اس حوالے سے کئی مذمتی پیغامات ری ٹوئٹ بھی کیے۔

جمعیت علمائے ہند کے مولانا محمود مدنی نے طالبہ مسکان کیلیے 5 لاکھ روپے انعام کا اعلان کردیا۔

نام نہاد بھارتی  لبرلرز منافقت پر اتر آئے

بھارت نام نہاد لبرل صحافی مسلمان طالبات کے حجاب پر پابندی کے معاملے پر منافقت پر اتر آئے۔بھارتی اخبار دی پرنٹ  کے ایڈیٹر شیکھر گپتا نے باحجاب خواتین کے حق میں اٹھنے والی لبرل آوازوں  کو بھی افسوسناک قرار دیدیا۔

شیکھرگپتا نے اپنے مضامین کے سلسلے ففٹی ورڈ ایڈٹ میں لکھا کہ ہے  یہ افسوسناک ہے کہ کرناٹک میں حجاب  اور زعفرانی  چادر  کی کشمکش  جدیداور لبرل ازم کی اچھی آوازوں کو بھی نوجوان خواتین کو چھپانے کے انتہاپسندانہ عمل کا دفاع کرنے پر مجبور کر رہی ہے۔

بھارتی نیوز اینکر پوجا شالی نے اپنے ٹوئٹ میں لکھا کہ کرناٹکا میں ایک ہفتے میں کیا تبدیلی آگئی، نوجوان طالبات کو کس نے قائل کیا کہ وہ اپنے امتحانات کی فکر کرنے کے بجائے اچانک اپنے جسموں کو چھپانا شروع کردیں اور اپنے مذہب کیلیے لڑیں۔

پوجا شالی نے مزید لکھا کہ کس تنظیم کو معلوم تھا کہ ہندو ممکنہ طور پر رد عمل ظاہر کر کے اسے فرقہ وارانہ بنا دیں گے؟  کرناٹک میں انتخابات کب ہونے والے ہیں؟۔ناظرین پوجا شالی نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ  مسلمان طالبات نے اچانک کسی کے کہنے پر حجاب شروع کردیا ہے اور یہ سب کرناٹکا میں ریاستی انتخابات کیلیے کیا جارہا ہے جبکہ ایسا کچھ بھی نہیں ہے کیونکہ اترپردیشن میں الیکشن ہورہے ہیں ، کرناٹکا کے الیکشنز میں ابھی وقت باقی ہے۔

بھارت میں مسلمانوں کی نسل کشی کے مطالبات مرکزی دھارے  کی طرف بڑھ رہے ہیں،نیویارک ٹائمز

  امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے اپنے ایک مضمون میں خبردار کیا ہے کہ   بھارت میں  مسلم کش فسادات  اور مسلمانوں کی نسل کشی کے مطالبات کنارے سے مرکزی دھارے کی طرف بڑھ رہے ہیں اور  سیاسی رہنما خاموش ہیں۔مضمون میں لکھا گیا ہے  کہ مرکزی دھارے سے باہر تصور کیے والی انتہاپسندعناصر تیزی  سے اپنے عسکری پیغام کوبھارتی معاشرے کے مرکزی دھارے  کی طرف لے جارہے ہیں  اور  بھارت کی آئینی طور پر محفوظ سیکولر جمہوریہ کو ایک ہندو ریاست میں تبدیل کرنے کے لیے فرقہ وارانہ نفرت کو ہوا دے رہے ہیں۔

مدھیا پردیش میں بھی  باحجاب طالبات کے اسکول میں داخلے پر پابندی

 بھارت میں باحجاب مسلمان طالبات کیخلاف نفرت کا سلسلہ پھیلتا جارہا ہے ۔بھارتی ریاست مدھیا پردیش کے شہر پڈوچیری میں  باحجاب طالبات کو اسکول میں داخلےسےروک دیاگیا۔ طالبات کو اسکول میں داخلے سے روکنے پر پڈوچیری ڈائریکٹوریٹ اسکول ایجوکیشن نے  تحقیقات کا حکم دیا ہے۔دوسری جانب مدھیا پردیش کے وزیر تعلیم اندر سنگھ پرمار بھی اسکولوں میں حجاب پرپابندی کیلئے انتہا پسندوں کی حمایت میں آگئے۔ کہتے ہیں حجاب یونی فارم کاحصہ نہیں لہٰذا اسکولوں میں حجاب لینے پر پابندی ہونی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ روایات پر اسکول کے بجائے گھروں میں عمل ہوناچاہیے،  اسکولوں میں یونی فارم ضوابط پرسختی سےعمل درآمد کے لیے کام کررہےہیں۔ وزیر تعلیم کاکہنا تھا کہ اسکولوں میں حجاب پر پابندی کا فیصلہ اس معاملے کے جائزے کے بعد کیا جائے گا۔

دوسری جانب  کرناٹک کے ضلع شموگا میں حکام نے حالات کو کنٹرول کرنے کے لیے دفعہ 144 نافذ کردی ہے اور لوگوں کے ایک جمع ہونے پر بھی پابندی عائد کر دی ہے۔اھر کرنا ٹک ہائیکورٹ میں آج  بھی مسلمان طالبات کی درخواست کی سماعت ہوئی ہے۔

متعلقہ تحاریر