موجودہ سیاسی صورتحال میں فون کال اہمیت اختیار کرگئی

کچھ سیاستدانوں کو پارٹی بدلنے تو کچھ کو اتحادی بدلنے کیلیے فون کال کا انتظارہے۔ کوئی فون کال کے انتظار میں بیمار پڑگیا ہے تو کسی کو فون کال کے خوف نے بیمار کردیا، کچھ لوگوں کو دھڑکا لگا ہوا ہے کہ کہیں فون کال بنا بنایا کھیل نہ بگاڑ دے۔

ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال میں فون کال اہمیت اختیار کرگئی،کچھ  سیاستدانوں کو پارٹی بدلنے تو کچھ کو اتحادی بدلنے کیلیے فون کال کا انتظار ہے۔کوئی فون کال کے انتظار میں بیمار پڑگیا ہے تو کسی کو فون کال کے خوف نے بیمار کردیا ہے جبکہ کچھ لوگوں کو دھڑکا لگا ہوا ہے کہ کہیں فون کال بنا بنایا کھیل نہ بگاڑ دے۔

وزیراعظم عمران خان کی جیب میں اب بھی ایک ایسی فون کال ہے جو اس سارے کھیل کو ان کی مٹھی میں کرسکتی ہے۔

یہ بھی  پڑھیے۔

تحریک عدم اعتماد: حزب اختلاف ملک میں سیاسی خزاں کے خاتمے کیلیے تیار ، بہار کا پتا نہیں

ڈاکٹر معظم محمود نیازی کی پاکستانی عوام کو ایک اور ویک اپ کال

 

پارٹی بدلنے کیلیے کون فون کال کا منتظر ہے؟

موجودہ سیاسی صورتحال سے باخبر انتہائی معتبر ذرائع نے نیوز 360 کو بتایا  ہے کہ  تحریک انصاف کے ان 16 ارکان  کوپارٹی بدلنے کیلیے فون کال کا  بے صبری سے انتظار ہے  جنہوں نے سینیٹ الیکشن میں یوسف رضا گیلانی کو ووٹ دیا تھا کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ وزیراعظم عمران خان کو ان ارکان کے نام معلوم تھے لیکن انہوں نے الیکشن کمیشن کو ان ارکان کے نام نہیں بتائے تھے کیونکہ ان ارکان کی نااہلی کی وجہ سے  حکومت ایوان میں اکثریت سے محروم ہوجاتی۔لہٰذا ان 16 ارکان کو معلوم ہے کہ انہیں آئندہ تحریک انصاف کا ٹکٹ نہیں ملےگا ، اس لیے وہ پارٹی چھوڑنا چاہتے ہیں اور فون کال کے منتظر ہیں تاکہ بلاخوف  ہوکر فیصلہ کرسکیں۔

ق لیگ اور ایم کیوایم کیوں فون کال کے منتظر ہیں؟

ذرائع کے مطابق حکومت کی 2 اہم ترین اتحادی جماعتوں ق لیگ اور ایم کیوایم کو بھی اتحادی حکومت سے نکلنے کیلیے فون کا ل کا بے صبری سے انتظار ہے کیونکہ انہیں خوف ہے کہ اگر حکومت کی ڈوبتی کشتی سے چھلانگ نہ  لگائی  اور پھر بھی حکومت گرگئی تو  آئندہ الیکشن میں نہ انہیں موجودہ کارکردگی کی وجہ سے ووٹ ملیں گے اور نہ ہی اپوزیشن کی صفوں میں جگہ ملے گی۔یہی وجہ ہے کہ یہ دونوں  جماعتیں  لائن عبور کرکے اپوزیشن  کی صفوں میں شامل ہونے کیلیے فون کال کی منتظر ہیں۔

 فون کال کے چکر میں کون کون بیمار پڑگیا؟

ذرائع کے مطابق  اپوزیشن لیڈر شہبازشریف کو بھی فون کال کا بے صبری سے انتظار ہے کہ سگنل ملتے ہی  وہ حکومت کیخلاف تحریک عدم اعتماد کا فائنل راؤنڈ شروع کرسکیں اور فون کال کے اسی انتظار میں وہ بیمار ہوکر گوشہ نشین ہوگئے ہیں  تاکہ ان سے کوئی اور رابطہ نہ کرسکے۔اسی طرح  پی ٹی آئی کے ناراض رہنما اور عمران خان کی حکومت کے اصل معمار جہانگیر ترین کی بیماری کی اصل وجہ  فون کال ہی ہے لیکن انہیں فون کال کا انتظار نہیں بلکہ فون کال آنے کا خوف طاری ہے جسے دور کرنے کیلیے وہ برطانیہ چلے گئے ہیں۔

میاں نواز شریف اور مولانا فضل الرحمان کو کیاخوف لاحق ہے؟

ذرائع نے نیوز 360 کو یہ بھی بتایا ہے کہ مسلم لیگ ن کے قائد میاں نوازشریف اور مولانا فضل الرحمٰن کو بھی  یہ خوف لاحق  ہے کہ عمران خان کی حکومت گرانے کیلیے تحریک عدم اعتمادکا  جو جال انہوں نے بچھایا ہے کہ کہیں اسے لپیٹنے کیلیے عین وقت پر کوئی فون کال نہ آجائے اور سارا کھیل تہس نہس ہوجائے۔

وزیراعظم کے ہاتھ اب بھی کیا اہم ترین آپشن موجود ہے؟

دوسری جانب ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ وزیراعظم عمران خان اب بھی اس کھیل کے سب سے اہم کھلاڑی ہیں  اور ان کے ہاتھ میں اب بھی بہت سے پتے موجود ہیں۔ذرائع کے مطابق وزیراعظم کے ایک ماتحت ادارے کی کال سے اب بھی بہت کچھ بن اور بگڑ سکتا ہے ۔

متعلقہ تحاریر