حزب اختلاف کی تحریک عدم اعتماد ، تاریخ پے تاریخ کی نذر

سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اپوزیشن کی جانب سے تاریخ پے تاریخ دینے کا مطلب واضح ہے کہ حزب اختلاف کی تیاری بھی مکمل نہیں اور ان کے نمبر بھی پورے نہیں ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف حزب اختلاف کی جماعتوں کی جانب سے تحریک عدم اعتماد کے مسئلے پر تاریخ پے تاریخ دینے کا سلسلہ جاری ہے۔ گذشتہ روز پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما سید خورشید شاہ نے نئی تاریخ دیتے ہوئے کہا تحریک عدم اعتماد 8 یا 9 مارچ کو پیش کی جائے گی، دوسری جانب وزیراعظم عمران خان نے تحریک کی ناکامی پر سخت نتائج کی دھمکی دے دی ہے۔

اتوار کے روز چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری وفد کے ہمراہ اپنے پرانے رفیق ندیم افضل چن کے گھر پہنچے۔ ندیم افضل چن نے دوبارہ پیپلز پارٹی میں شمولیت کا اعلان کیا۔

یہ بھی پڑھیے

تحریک عدم اعتماد اسپیکر یا وزیراعظم کے خلاف ہوگی فیصلہ نہیں ہوا، بلاول بھٹو

رمضان شوگرملز کیس:  شہباز شریف نے بریت کی درخواست دائر کردی

اس موقع پر سینئر  رہنما اور سابق وفاقی وزیر سید خورشید شاہ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد 8 یا 9 مارچ کو پیش کی جائے گی۔ یعنی ایک اور نئی تاریخ دے دی گئی۔

اس سے قبل جے یو آئی (ف) اور پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے 48 گھنٹے کی مہلت دی تھی جبکہ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے 72 گھنٹوں کو اہم قرار دیا تھا۔

وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کے لیے اپوزیشن کی تمام جماعتیں متفق ہیں ، تاہم کامیابی ہوتی ہے یا نہیں یہ کہنا قبل ازوقت ہوگا۔

گذشتہ روز ندیم افضل چن کے گھر کے باہر پریس کانفرنس کرتے ہوئے چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ ہم تحریک عدم اعتماد پیش کرنے جارہے ہیں مگر اس میں 100 فیصد کامیابی ہوتی ہے اس پر کچھ نہیں کہا جاسکتا۔

ان کا کہنا تھا کہ ابھی اس بات پر اتفاق نہیں ہوا کہ تحریک عدم اعتماد پہلے وزیراعظم کے خلاف لانی ہے یا اسپیکر قومی اسمبلی کے خلاف۔

مولانا فضل الرحمان کی 48 گھنٹے کی جبکہ احسن اقبال اور شاہد خاقان عباسی کی 72 گھنٹے کی ڈیڈ لائن ختم ہو گئی ہے، مگر تحریک عدم اعتماد کا دور دور تک کوئی نام و نشان نہیں ہے۔

نئی پیش رفت کے مطابق بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں عوامی لانگ مارچ لاہور سے نکل چکا ہے اور اسلام آباد کی جانب رواں دواں ہے جبکہ مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے تمام اراکین قومی اسمبلی کو سختی سے ملک چھوڑ کر جانے سے روک دیا ہے۔

Opposition no-confidence motion, date after date
youtube

وزیراعظم عمران خان کا انتباہ

اتوار کے روز میلسی میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے جلسے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے اپوزیشن کو واشگاف الفاظ میں دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا کہ "یہ لوگ کون ہیں جو تحریک عدم اعتماد چلا رہے ہیں۔ ان چوروں اور ڈاکوؤں کی تحریک ناکامی سے دوچار ہوگی۔”

انہوں نے کہا کہ "تحریک عدم اعتماد کے خلاف میری پوری تیاری ہے۔ اگر تحریک عدم اعتماد ناکام ہوئی تو کیا آپ تیار ہیں جو میں اس کے بعد آپ لوگوں کےساتھ کروں گا۔”

تجزیے اور تبصرے

سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اپوزیشن کی جانب سے تحریک عدم اعتماد کے مسئلے پر تاریخ پے تاریخ دینے کا مطلب واضح ہے کہ حزب اختلاف کی اس حوالے سے پوری تیاری نہیں ہے۔ اور ان کے نمبر بھی پورے نہیں ہیں۔ اپوزیشن "اب کے مار” والی رٹ لگائے بیٹھے ہیں۔ اگر حزب اختلاف 8 یا 9 مارچ کو عدم اعتماد کی تحریک پیش کرتی ہے تو اسپیکر قومی اسمبلی قانون کے مطابق 7 دن کے اندر ووٹنگ کرانے کے پابند ہوں گے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ خود اپوزیشن اس بات پر بھی متفق نہیں ہے کہ تحریک وزیراعظم کے خلاف پیش کرنی ہے یا اسپیکر قومی اسملبی کے خلاف ۔

بلاول بھٹو زرداری کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ قومی اسمبلی میں مسلم لیگ ن کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی دوسری بڑی حزب  اختلاف کی جماعت ہے اور ان کے چیئرمین تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کو سو فیصد یقین نہیں ہے اس کا صاف مطلب ہے کہ حزب اختلاف "پانی میں مدھانی چلا رہی ہے۔”

متعلقہ تحاریر