نصف قومی اسمبلی انتخابی اصلاحات کرے گی

وفاقی وزیر برائے آبی وسائل خورشید شاہ کا کہنا ہے کچھ اصلاحات بجٹ سے پہلے اور کچھ اصلاحات بجٹ کے بعد کی جائیں گی۔

وفاقی وزیر برائے آبی وسائل سید خورشید شاہ کا کہنا ہے کہ کچھ اصلاحات بجٹ سے پہلے اور کچھ بعد میں ہوں گی جبکہ سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ آئندہ عام انتخابات کو سب کے لئے قابل قبول بنانے اور سب کو یکساں مواقعوں کی فراہمی کے حوالے سے انتخابی اصلاحات انتہائی اہمیت کی حامل ہیں، جو سب کی مشاورت سے کی جانی چاہئے جبکہ گزشتہ عام انتخابات میں سب سے بڑی پارلیمانی جماعت کے طور پر سامنے آنے والی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے ارکان قومی اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دے چکے ہیں۔

دوسری جانب 17 مئی کو قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوتے ہی کورم پورا نہ ہونے پر جمعہ تک ملتوی کردیا گیا،13 جماعتیں حکومتی اتحاد کورم کے لئے ضروری ایک چوتھائی یعنی 86 ارکان پورے کرنے میں ناکام رہا اور ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا بلکہ موجودہ حکومت کے دور میں کئی بار کورم پورا نہ ہونے پر قومی اسمبلی کے اجلاس ملتوی کرنا پڑے۔مسلم لیگ نواز اور دیگر اتحادی جماعتیں الیکٹرونک ووٹنگ مشین، حلقہ بندیوں، ووٹر فہرستوں اور سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے اور اس کے طریقہ کار کے حوالے تحفظات رکھتی ہیں اور ان میں اصلاحات کے بل لارہی ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

سپریم کورٹ نے ہائی پروفائل کیسز کی تحقیقات پر تعینات افسران کے تبادلوں پر پابندی لگادی

وزیر اعلی پنجاب کا عوام کو سستا آٹا فراہم کرنے سے متعلق بڑا اعلان

وفاقی وزیر برائے آبی وسائل سید خورشید شاہ کا میڈیا سے گفتگو میں کہنا تھاکہ آئندہ ہفتے پیر کے روز سے انتخابی اصلاحات اور دیگر بل قومی اسمبلی میں لانے کی تیاری کی جا رہی ہے۔کچھ انتخابی اصلاحات کرنی ہے جو بہت اہم ہیں اور ان کے بغیر الیکشن نہیں ہو سکتے۔کچھ انتخابی اصلاحات بجٹ سے پہلے اور کچھ بعد میں لائی جائیگی۔ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن عام انتخابات کیلئے  سات ماہ کا وقت مانگ رہا ہے۔

خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ اکتوبر اور نومبر تک حکومت ختم کرنے کا کوئی ارادہ نہیں۔

پیر سے انتخابی اور دیگر اصلاحات کا عمل شروع کر رہے ہیں جب یہ مکمل ہو جائے گی انگلش قانون بن کر صدر کے پاس بھجوائی جائیں گی انگوری سی عمران خان نے اس وقت وقت جاری رکھی ہے اس کے تحت لگتا ہے کہ صدر مسودہ قانون کو دس دن اپنے پاس رکھیں گے اور دستخط نہیں کریں گے۔دو جون کو قومی اسمبلی کے سیشن کا آغاز کریں گے جبکہ 10 جون کو آئندہ مالی سال کا بجٹ پیش کیا جائے گا۔دو سے دس جون کے درمیان قانون سازی کی جائے گی۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ چیئرمین سینیٹ کے خلاف ابھی عدم اعتماد کی کوئی تحریک نہیں ڈھائی جا رہی ہیں یہ آئندہ حالات پر منحصر ہو گا کہ کیا کرنا چاہیے ،پنجاب کی موجودہ حکومت کو سپریم کورٹ کے فیصلے کے باوجود چار ووٹوں کی برتری حاصل ہے۔

خورشید شاہ کا کہنا تھا تھا کہ کہ عمران خان پر توہین مذہب کے مقدمات درج ہونے کے حوالے سے پاکستان پیپلز پارٹی سے کوئی رائے نہیں لی گئی یہ حکومت کا اپنا فیصلہ تھا ۔ عمران خان حکومت کے خلاف نہیں بلکہ ریاست کے خلاف تحریک چلا رہے ہیں،انہوں نے جو لب و لہجہ اختیار کیا  ہے وہ کسی اور طرف اشارہ کر رہا ہے۔

حکومت نے قومی اسمبلی میں گزشتہ برس 10 جون کو قواعد معطل کرتے ہوئے 21 بل منظور کرا ئے تھے۔ جن میں انتخابی اصلاحات اور انڈین جاسوس قرار دیے جانے والے کلبھوشن یادھو کی سزا کا موثر جائزہ لینے کا بل بھی شامل تھا۔ بعد میں اپوزیشن کے احتجاج پر اس وقت کے اسپیکر قومی اسمبلی نے حکومت اور اپوزیشن کے سینیئر رہنماوں پر مشتمل کمیٹی بھی تشکیل دے دی ہے تاکہ انتخابی اصلاحات کے بلوں پر نظرثانی کی جاسکے۔

14 رکنی کمیٹی برائے قانون سازی میں حکومت اور اپوزیشن کو برابر نمائندگی دی گئی تھی تاہم تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے اور قومی اسمبلی سے پی ٹی آئی ارکان کے استعفوں کے بعد یہ کمیٹی غیر موثر ہوگئی۔

متعلقہ تحاریر