سیاسی انتشار پاکستان کومعاشی دیوالیہ پن کے قریب لے آیا، بلومبرگ

تین ہفتے پہلےتک میرا خیال تھا کہ پاکستان کے اگلا سری لنکا بننے کا صفر امکان ہے لیکن نئی حکومت کی بے عملی تشویشناک ہے، معاشی ماہر کا امریکی جریدے کی رپورٹ میں تبصرہ

امریکی  جریدے بلومبرگ نے  اپنی تازہ مضمون میں قرار دیا ہے کہ سیاسی انتشار میں پاکستان کو معاشی  دیوالیہ پن کے مزید قریب  لے آیا ہے۔

بلومبرگ کے مطابق بڑھتی ہوئی مہنگائی، ایندھن کی قیمتوں  کے تنازع،مہینوں سے جاری کشیدہ سیاسی ماحول میں پاکستان اپنی معیشت کو رواں دواں رکھنے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے جس  کے باعث یہ خدشہ پیدا ہو گیا ہے کہ دنیا کی سب سے زیادہ آبادی والے ممالک میں شامل پاکستان  معاشی دیوالیہ پن کی عالمی لہر میں جلد ہی سری لنکا بن سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

آئی ایم ایف نے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کو ہری جھنڈی دکھا دی

شرح سود میں اضافے کے باوجود اپریل میں آٹو فنانسنگ میں0.9فیصد کا اضافہ

بلومبرگ کے مطابق سرمایہ کار پریشانی کا شکار ہیں، آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ پیکیج نہ ملا تو پاکستان اپنی تاریخ میں دوسری بار ڈیفالٹ کر سکتا ہے۔ بدھ کو دوحہ میں آئی ایم ایف کے ساتھ بات چیت کا اختتام ہوتے ہی  حکام نے تسلیم کیا کہ عالمی مالیاتی فنڈ سے  قرضے کے حصول کیلیےترقی کی رفتار میں کمی لانے کے ساتھ ساتھ تیل کی قیمتیں بڑھانے کا سیاسی طور پر مشکل فیصلہ ناگزیر ہے ۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے قائم مقام گورنر مرتضیٰ سید نے منگل کو بلومبرگ ٹی وی کو دیے گئے انٹرویو میں کہا کہ ہمیں یقین ہے کہ ہم کامیاب ہوجائیں گے۔

بلومبرگ کے مطابق یہ مذاکرات ایک ایسے وقت میں ہو رہے ہیں جب پاکستانی ایشیا کی دوسری تیز ترین مہنگائی سے نبرد آزما ہیں اورسابق  وزیر اعظم عمران خان  حکومت کو قبل از وقت انتخابات پر مجبور کرنے کے لیے اپنے حامیوں کے ساتھ ملک کے دارالحکومت پر قبضہ جمانے کے لیے تیار ہیں۔ پاکستان کرونا وبا، روس ، یوکرین جنگ اور بڑھتی ہوئی شرح سود کی وجہ سے لگنے والے مالیاتی جھٹکے سہتے ہوئے  قرضوں کی تنظیم نو کا سامنا کرنے والی متعدد معیشتوں میں سے ایک ہے۔

رپورٹ کے مطابق  پاکستان آئی ایم ایف سے 3 ارب ڈالر کے اجرا کا خواہاں ہے۔ اس رقم سے ملک کے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہو گا جو کہ 10.2 ارب ڈالرکے ساتھ 2 ماہ سے بھی کم درآمدات کا بوجھ برداشت کرسکتے ہیں ۔ حکومت کو اس سال 45 ارب  ڈالر کے تجارتی خسارے   کا خدشہ ہے۔

بانڈ مارکیٹ بھی بڑھتی ہوئی تشویش کی طرف اشارہ کر رہی ہے۔ 2031 میں واجب الادا پاکستانی بانڈ کی قیمت اس ماہ تقریباً 14 سینٹس گر گئی ہے ، یہاں تک کہ منگل اور بدھ کو کچھ ری باؤنڈ کرنے کے بعد 63 سینٹس تک پہنچ گئی ہے۔ سرمایہ کار عام طور پر بانڈ پر 70 سینٹ سے کم قیمتوں کو پریشانی اور بڑھتے ہوئے خطرے کے طور پر دیکھتے ہیں کہ حالات خراب ہونے کی صورت میں قرض لینے والوں کو مستقبل میں ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

اسٹاک ہوم میں Coeli Frontier Markets AB میں فرنٹیئر مارکیٹس فکسڈ انکم کے پورٹ فولیو مینیجر لارس جیکوب کربی نے کا کہنا ہے کہ پاکستان ایک مشکل صورتحال سے دوچار ہے۔

بلومبرگ کے مطابق حکومت اور سابق وزیر اعظم خان کے درمیان  سیاسی محاذ آرائی  نے آئی ایم ایف کے ساتھ آگے بڑھنے کا راستہ مزید پیچیدہ کر دیا ہے۔ آئی ایم ایف کے لیے ایک اہم نکتہ عمران خان کے دور سے جڑتا ہے۔ اپریل میں عہدہ چھوڑنے سے پہلےسابق وزیراعظم  نے ووٹرز میں اپناتاثر  بہتر بنانے اور بڑھتی مہنگائی  پرعوام میں پائی جانے والی  مایوسی کو ختم کرنے کی آخری کوشش کے طو پر ایندھن کی قیمتیں کم کیں اور پھر انہیں 4 ماہ کے لیے منجمد کر دیا ۔

لیکن آئی ایم ایف نےپٹرولیم مصنوعات پر سبسڈی ختم کرنے تک پاکستان کو مزید  رقم دینےسے انکار کردیا ہے جبکہ عمران خان کے پیش رو شہباز شریف نے سبسڈی کی مالیت ماہانہ 600 ملین ڈالر تک پہنچنے کے باوجود قیمتوں میں اضافہ موخر کر دیا ہے۔ حکومت کو پہلے ہی گندم اور چینی جیسی بنیادی اشیا کی قیمتوں میں اضافے پر تنقید کاسامنا ہے ۔

اسٹاک ہوم میں ٹنڈرا فونڈر اے بی کے چیف انویسٹمنٹ آفیسر میٹیاس مارٹنسن کا کہنا ہے کہ تین ہفتے پہلےتک میرا خیال تھا کہ پاکستان کےاگلا سری لنکا بننے کا صفر امکان ہے لیکن نئی حکومت کی بے عملی تشویشناک ہے۔

پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ وہ سبسڈیز برقرار رکھتے ہوئے آئی ایم ایف کے ساتھ درمیانی  تلاش کرنے کے لیے اب بھی پراعتماد ہیں۔بلومبرگ ٹی وی  سے گفتگو میں قائم مقام گورنر اسٹیٹ بینک مرتضیٰ سید نے مزید کہا کہ خرابیوں کو دور کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ آئی ایم ایف کی رقم ملک کو اگلے مالی سال کے اختتام تک آسانی سے خامیوں کو دور کے قابل بنائے گی۔پاکستان آئی ایم ایف سے 2019  کی ریسکیو پیکیج کی  بحالی سمیت اضافی  2 ارب ڈالر مانگ رہا ہے۔

پاکستان کے بانڈز کی مالک کمپنی کے لندن میں مقیم ہیڈ ایڈون گٹیریز نے کہا کہ ان کی کمپنی کچھ اتار چڑھاؤ سے مطمئن ہے اور اپنی ہولڈنگز فروخت کرنے کا ارادہ نہیں رکھتی۔انہوں نے کہا کہ سیاست کے پیش نظر یہ دشوار گزار  راستہ ہوگا لیکن آخر میں نہ تو پاکستان اور نہ ہی آئی ایم ایف اس سے پیچھے ہٹیں گے۔

متعلقہ تحاریر