سندھ، بلوچستان میں بارشوں نے تباہی مچا دی، حکمران اشرافیہ منظر سے غائب
ایک جانب بارشوں اور سیلاب نے سندھ اور بلوچستان میں تباہی مچارکھی ہے تو دوسری جانب بلاول بھٹو زرداری ، اسلم بھوتانی ، سردار اختر مینگل ، محمود خان اچکزئی ، خالد مگسی جیسے قدآور شخصیات کہیں دکھائی نہیں دے رہیں۔
سندھ اور بلوچستان میں مون سون بارشوں اور سیلاب نے شہریوں کو بھاری جانی اور مالی نقصان پہنچایا ہے جبکہ حکمران اشرافیہ عوام کی نظروں سے غائب ہو گئے ہیں۔
سیلاب زدہ علاقوں میں فوری مدد کے منتظر شہریوں کے لیے بے معنی فیصلے کرنے اور نوٹیفیکیشن جاری کرنے کے علاوہ منتخب حکمران اور ان کے اتحادی امدادی کارروائیوں میں کہیں نظر نہیں آتے۔
یہ بھی پڑھیے
غریدہ فاروقی، مشبر لقمان، اور وقار ستی کو ایک جیسے ٹوئٹ کرنے پر کڑی تنقید کاسامنا
تین ماہ قبل اغوا ہونے والی12سالہ عیسائی لڑکی مشکلات کا شکار، والدین کی مدد کی اپیل
سندھ ، بلوچستان اور ملک کے دیگر حصوں میں مون سون بارشوں کے نئے اسپیل پیشین گوئیوں کے درمیان بڑے نقصانات کے اعدادوشمار کسی کو بھی ہلا دینے کے لیے کافی تھے۔
پراونشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) سندھ کے مطابق حالیہ بارشوں اور سیلاب سے صوبے بھر میں اب تک 166 افراد جاں بحق ، 573 زخمی، 40,910 مکانات کو جزوی طور پر نقصان پہنچا اور 6 ہزار 489 مکانات مکمل طور پر تباہ ہوگئے، جبکہ سیلاب سے 8 لاکھ 10 ہزار 683 ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ ہوگئیں۔
حالیہ بارشوں کے دوران سندھ کی حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے گڑھ لاڑکانہ میں کم از کم 200 مکانات گر گئے۔
اتنی بڑی تباہی کے باوجود وزیراعلیٰ سندھ ، ان کے صوبائی وزراء اور یہاں تک کہ پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری نے سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ کرنے کی زحمت نہیں ، اور مشاہدہ کرنے کی کوشش نہیں کی کہ سیلاب نے کس قدر تباہی مچائی ہے۔
پی پی پی کے چیئرمین اس عرصے کے دوران غیر ملکی دورے کرتے رہے، تاہم انہوں نے حال ہی میں پی پی پی کے وزراء اور قانون سازوں کو سیلاب سے متعلق ہونے والی امدادی سرگرمیوں نگرانی کےلیے اپنے اپنے حلقوں کا دورہ کرنے کی ہدایت جاری کی ہیں۔
بلوچستان میں صورتحال اس سے بھی زیادہ بدترین ہے جہاں سیلاب اور بارشوں کی وجہ سے کئی ڈیم ٹوٹ گئے اور پانی قریبی بستیوں میں داخل ہو گیا سے شہریوں کو جانی اور مانی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔
پی ڈی ایم اے کی رپورٹ کے مطابق اب تک بلوچستان میں سیلاب سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد 225 تک پہنچ گئی جبکہ سینکڑوں افراد شدید زخمی ہیں ، ہزاروں افراد اپنے اپنے علاقوں سے نقل مکانی کرچکےہیں ، دیگر افراد حکام کی مدد کے منتظر ہیں۔
بلوچستان کے قانون سازوں نے فلڈ ریلیف آپریشن میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کے بجائے اپنے آپ کو گھروں اور دفاتر تک محدود کر رکھا ہے۔
بلوچستان حکومت نے مزید بارشوں کی پیش گوئی اور صوبے کے مختلف حصوں مین سیلاب کی نئی وارننگ جاری ہونے کے بعد صوبے کے تمام اسکول 22 سے 27 اگست تک بند کر دیے گئے۔
بلوچستان کو ملانے والی اہم شاہراہیں تباہ حالی کی داستانیں سنارہی ہیں ، صوبے کا تقریباً سارے ملک سے زمینی راستہ منقطع ہو گیا۔
جہاں ایک جانب سیلاب اور بارشوں نے بلوچستان میں تباہی مچارکھی ہے وہیں دوسری جانب مرکز میں شہباز شریف حکومت کے اتحادی سردار اختر مینگل ، سردار محمود خان اچکزئی ، خالد مگسی اور اسلم بھوتانی جیسی شخصیات کہیں دکھائی نہیں دے رہی۔
صوبہ بلوچستان میں گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران طوفانی بارشوں کے باعث جعفرآباد ، بارکھان ، گندھکا اور اوستہ محمد میں 21 افراد جاں بحق ہوگئے ہیں۔