ایئر لفٹ نے 11ماہ میں 8.5 کروڑ ڈالر کیسے اڑائے؟کمپنی کی تباہی کی اندرونی داستان
کس طرح بدانتظامی اور نااہلی نے پاکستان کے پہلے طلسماتی ادارے کو تباہ کیا،15 سابق ملازمین کے ہوشربا انکشافات

پاکستان میں سب سے تیزی سے ترقی کرنے والے اسٹارٹ اپ ایئر لفٹ کی اچانک بندش نے جہاں ہزاروں افراد کا روزگا چھین لیا وہیں کاروباری کمیونٹی کو بھی شدید دھچکا پہنچایا ہے۔
غیر منافع بخش بین الاقوامی اشاعتی ادارے ریسٹ آف ورلڈ نے اپنی ہوشربا تحقیقی رپورٹ میں ایئرلفٹ کی تباہی کے اسباب کا جائزہ لیتے ہوئے اس کے 15 سابق ملازمین سے تفصیلی بات چیت کی ہے جنہوں نے کمپنی کی تباہی کے اسباب بیان کرتے ہوئے ہوشربا انکشافات کیے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
کریم کے شریک بانی کا ایئرلفٹ کے شریک بانی کو خراج تحسین
تاریخی سرمایہ کاری حاصل کرنے پر وزیراعظم کی ایئرلفٹ کو مبارکباد
ریسٹ آف ورلڈ نے اپنی طویل ترین رپورٹ کی ابتدا کچھ یوں کی ہے کہ اسلام آباد کے ایک نوجوان مارکیٹنگ مینیجر عمر عامر راجہ کراچی کے ہنگامہ خیز فارچیون ٹاور میں واقع ایئرلفٹ کے دفتر میں داخل ہوئے،نہ جانتے ہوئے کہ وہ کیا توقع کررہے ہیں۔ یہ دسمبر 2021 تھا اور وہ ابھی اپنی بیوی کے ساتھ ملک کے تجارتی دارالحکومت منتقل ہوئے تھے جو پہلی مرتبہ حامل ہوئی تھیں، وہ ملک کے سب سے سرمائے کے حامل ا سٹارٹ اپ میں کام شروع کرنے کے لیے تیار تھے جو پاکستان کا پہلا طلسماتی ادارہ بننے جارہا تھا ۔
صرف چار ماہ قبل، ایئر لفٹ نےسودا سلف گھروں تک پہنچانے والے کاروبار کے طور پر پاکستان میں اب تک کے سب سے بڑے فنڈنگ راؤنڈ میں ساڑھے 8 کروڑ ڈالر اکٹھے کیے تھےاور اس کی مجموعی حیثیت27کروڑ 50لاکھ ڈالر تھی اور کمپنی نےمجموعی طو ر پر 11 کروڑ ڈالر سے زائد اکٹھے کیے تھے جس کے بعد وہ پاکستان کی سب سےزیادہ فنڈز حاصل کرنے والی کمپنی بن گئی تھی۔
نقد رقم سے بھر پور کمپنی تیز رفتاری سے پھیل رہی تھی، باصلاحیت پیشہ ور افراد کو محفوظ ملازمت کا لالچ دیکر روایتی کمپنیوں سے اٹھارہی تھی۔ایئرلفٹ نے اپنی خدمات کا دائرہ پاکستان کے 8 شہروں کے علاوہ جنوبی افریقا کے 3 شہروں کیپ ٹاؤن، جوہانسبرگ اور پریٹوریا تک پھیلادیا تھا ۔
ایئرلفٹ کی نئی شہرت کے باوجود عامر راجہ واقعی کمپنی کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے تھے۔ انہوں نے ریسٹ آف ورلڈ کو بتایا کہ وہ باپ بننے والے تھے ، اس لیے پرکشش معاوضے کی وجہ سے انہوں نے کریٹو منیجر کے طور پر کمپنی میں ملازمت اختیار کرلی۔ ایک ایسے ملک میں جہاں کارپوریٹ تنخواہیں اوسطاً ایک لاکھ روپے سے کم ہیں، کارکردگی پر مبنی بونس اور 10 ہزار ڈالر کے ایکویٹی آپشن کے ساتھ ان کی تنخواہ ڈیڑھ لاکھ روپے ماہانہ (تقریباً920ڈالر) مقرر کی گئی تھی ۔دیگر مراعات کے علاوہ کمپنی نے ان کی بیٹی کی پیدائش کے بعد باپ بننے کی خوشی میں میڈیکل بل کی مد میں 2 لاکھ روپے بطور تحفہ دینے کی پیشکش کی۔
راجہ نےکمپنی میں اپنے پہلے دن کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ” میں دفترپہنچا تو وہ ایسے روشن کیا گیا تھا جیسے کسی جنرل کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہو“ ۔ ایک ہلچل سے بھرپور مرکزی سڑک پر ایک بلند عمارت میں واقع دفتر کو ایک اوپن پلان کے ساتھ ڈیزائن کیا گیا تھا،اجتماعی میزیں جس میں ایرگونومک کرسیاں اور شیشے کی دیواروں والے کانفرنس روم تھے۔انہوں نے بتایا کہ”وہاں کافی بین بیگز، ایک طرف کافی مشین اور ہر ایک کے لیے ناشتے کی بھرمار تھی۔“
دفتر پہنچنے پر ملنے والے تحائف کے ڈبے میں قلم، ایک مگ اور پانی کی بوتل موجود تھی اور ان سب چیزوں پر ان کا نام کندہ تھا ۔ ایک ایسے ملک میں جہاں بہت سے دفاتر اب بھی گھٹیا ڈیسک ٹاپ پی سی استعمال کرتے ہیں، ائیر لفٹ نےانہیں کو بالکل نیا میک بک دیاتھا۔”میں نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ مجھے کہاں بیٹھنا ہے لیکن انہوں نے مجھے بتایا کہ میں جہاں چاہوں بیٹھ سکتا ہوں،“ راجہ نے یادکرتے ہوئے بتایا کہ” یہاں تک کہ 33 سالہ شریک بانی، سی ای او اور کمپنی کی شناخت عثمان گل کے پاس بھی کوئی نامزد دفتر نہیں تھا۔“

پہلے ہفتے ہی عامر راجہ کو بتایا گیا کہ عثمان گل کراچی آفس کے دورے پر آئیں گے ۔عامر راجہ نے اس دن بہترین لباس پہنا لیکن جب وہ دفتر پہنچے تو عثمان گل انہیں گیم روم میں پلے اسٹیشن 4 کھیلتے ہوئے ملے۔
ائیر لفٹ کو ملنے والی سیریز بی راؤنڈ کی ساڑھے 8کروڑ ڈالر کی فنڈنگ کے صرف 9ماہ بعد رواں سال مئی میں جب عامر راجہ کو ملازمت حاصل کیے ابھی صرف 5 ماہ ہی گزرےتھے کہ کو ان 31 فیصد ملازمین کی فہرست میں شامل کردیا گیا جنہیں”اسٹریٹجک ریلائنمنٹ“کے ایک حصے کے طور پرملازمت سے فارغ کیا گیا تھا۔
جون میں عثمان گل نے ریسٹ آف ورلڈ کو بتایا کہ کاروباری تنظیم نو سے ائیر لفٹ کو عالمی مالیاتی بحران پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔لیکن اگلے ہی ماہ 12 جولائی 2022 کو ایئر لفٹ نےکمپنی مستقل طور پر بند کرنے کا اعلان کرکے پاکستانی اسٹارٹ اپ کمیونٹی میں صدمے کی لہردوڑادی ۔ کمپنی کے سرمایہ کاروں نے نئے فنڈنگ راؤنڈ سے دستبرداری اختیار کرلی تھی اور تقریباً 300 کارپوریٹ ملازمین سمیت گودام اور ڈیلیوری پر مامور ہزاروں ملازمین راتوں رات بے روزگار ہو گئے ۔
اگست کے آخر میں عثمان گل نےکمپنی بند کرنے کے بعد ریسٹ آف ورلڈ سے بات کی ۔ وہ لاہور میں کمپنی کے ہیڈ کوارٹر میں تھے، مٹھی بھر ملازمین کے ساتھ اپنی بنائی ہوئی کمپنی میں سے جو کچھ بچا تھا اسے ختم کر رہے تھے۔ پورے پاکستان میں لاکھوں روپے مالیت کی انوینٹری والے ائیر لفٹ کے گوداموں کے کمرے بچوں کے فارمولا دودھ ، دالوں اور آلو کے چپس کی ان گنت الماریوں سے بھرے پڑے تھے،جنہیں ختم کرکے قرض دہندگان کے حوالے کیا جارہا تھا۔ کراچی آفس کا خوبصورت گیم روم اب صاف کردیا گیا تھا۔
عثمان گل نے ریسٹ آف ورلڈ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ”میرے خیال سے اگر تبدیلی اس بات کا نام ہے کہ ایئرلفٹ نے سرمایہ کاروں کو زیادہ منافع دیا؟ تو ہاں، بدقسمتی سے ہم اس میں ناکام رہے لیکن اگرآپ پورے ماحولیاتی نظام کو تبدیل کرنے کی بات کررہے ہیں ،یعنی پاکستان کو ایک نئی حقیقت میں داخل کرنا،تو پھر کامیابی کے اس پیمانے پر ہم نے ایک طویل سفر طے کیا۔“ انہوں نے کہاکہ”کئی طرح سےایئر لفٹ نے پاکستانی اسٹارٹ اپس کے لیے بڑے پیمانے پر امنگوں کو بڑھایا۔ ایئر لفٹ میں ہماری ٹیموں نے عمل درآمد کے معیار، حکمت عملی، عالمی معیار کی ثقافت کی تعمیر، ایک جدید پروڈکٹ تیار کرنے، بڑے پیمانے پر فنڈ ریزنگ راؤنڈز میں اضافہ کیا۔“
ایک سال کے دوران کچھ بھی نہیں ہوا تو پاکستان کا فلیگ شپ سٹارٹ اپ ،ملک کے بہترین ادارےکے طور پر تشہیر اور فروخت کیسے ہوا ؟ملک کی سب سے بڑی سیریز بی فنڈنگ کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے ، جس کے 11 ماہ بعد ہی کمپنی دیوالیہ ہوگئی؟ جب ائیر لفٹ میں ایک سال سے بھی کم عرصے میں جھونکے گئے 85 ملین ڈالر کے بارے میں پوچھا تو عثمان گل نے اصرار کیا کہ یہ غلط سوالات ہین۔انہوں نے اصرار کیا کہ سوال یہ کرنا چاہیے کہ” 3سال میں کس چیز نے ایئر لفٹ کو10کروڑ ڈالرسے زائد اکٹھا کرنے کے قابل بنایا؟پاکستان میں ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا۔ اس ٹیم نے کیا مختلف کیا؟“
ایئرلفٹ کے 15 سے زیادہ سابق ملازمین کے انٹرویوز میں کمپنی کے دو بالکل مختلف روپ سامنے آتے ہیں ۔
ائیر لفٹ کے کارپوریٹ دفاتر میں موجود نوجوان ملازمین جو ملک کے سب سے زیادہ مشہور اسٹارٹ اپ سے تعلق کی انتہاؤں کا تجربہ کر رہے تھے، ائیر لفٹ کے پیچھے کھڑے ہوگئے کیونکہ یہ تمام نوجوان بے لگام ترقی کی راہ پر چل رہے تھے ۔
دریں اثنا ایئرلفٹ کی شوقیہ قیادت کے عزائم کو عملی جامہ پہنانے کا ذمہ دار آپریشنز عملہ مبینہ طور پر انتشار کا شکار تھا۔انوینٹری میں بدانتظامی، قیمتوں کا تعین کرنے میں ناکامی اور دھوکہ دہی کی بہتات کے باعث آخر کار ہر قیمت پر ترقی کا ماڈل ناقابل برداشت ہوکر منہدم ہو گیا۔

لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک سابق گودام مینیجر نے ریسٹ آف ورلڈ کو بتایاکہ” ایسا محسوس ہوا کہ وہ یہ سب کچھ مالیت کے تعین کے لیے کر رہے ہیں کیونکہ ایسا کوئی طریقہ نہیں تھا کہ وہ اس طرح منافع بخش بننے کے بارے میں سوچ بھی سکتے، یہ سمجھ سے بالاتر تھا۔“
ایئر لفٹ کی بنیاد 2019 میں عثمان گل اور دیگر پانچ افراد نے ماس ٹرانزٹ سروس کے طور پر رکھی تھی۔ 2020 کے اوائل میں جیسے ہی کرونا وبا آئی ،کمپنی کو فوری طور گروسری ڈیلیوری ماڈل کی طرف موڑ دیا گیا۔ پڑوسی ملک بھارت سمیت دیگر مارکیٹوں میں فوری ڈیلیوری سروسز کی کامیابی کوبنیاد بناکر ایئر لفٹ نے اپنی تاریخی سیریز بی راؤنڈ کو کامیاب بنایا۔
اس وقت، سیریز اے فنڈنگ حاصل کرنے کےتقریباً ایک سال بعد کمپنی 30سے50فیصد ماہانہ ترقی کی شرح کا دعوی کر رہی تھی۔ اس وبائی مرض کے دوران ابھرتی ہوئی مارکیٹوں میں وینچر فنڈنگ میں تیزی آئی تو کوئیک کامرس میں کام کرنے کا صرف ایک سال کا تجربہ رکھنے والی کمپنی ایئرلفٹ کو بہترین پاکستانی اسٹارٹ اپ پیش کیا گیا ۔ بکلی وینچرز سے پوڈ کاسٹر ہیری سٹیبنگز اور جوش بکلی کی مشترکہ قیادت میں سیریزبی فنڈنگ کے ذریعے کمپنی اعلیٰ سطح کے متعدد بین الاقوامی سرمایہ کاروں کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی، جس نے ائیر لفٹ کو اس وعدے کے ساتھ مزید پرکشش بنادیاکہ وہ تیز ترین ترقی کے اپنے حالیہ طریقہ کار کو جاری رکھے گی۔
ایئر لفٹ کے بہت سے سابق ملازمین ریسٹ آف ورلڈ کوبتایا کہ کمپنی میں کام کرنا ان کےسابقہ تجربات کے برعکس تھا ، پاکستان کے اکثر اداروں میں جہاں سخت درجہ بندی اور افسر شاہانہ مزاج کے ساتھ کام کیاجاتا ہے وہاں ایئرلفٹ میں فراخدلانہ معاوضے اور مفت لنچ کے علاوہ کمپنی نے لچکدار نظام الاوقات کی اجازت دے رکھی تھی، آپ کو 10 منٹ کی بات چیت کی درخواست کرنے کے لیے بھی گوگل کیلنڈر کے دعوت نامے بھیجے جاتے تھے۔
کمپنی کے پاس مشن کا واضح احساس تھا ، ان کا مقصد ٹرانسپورٹ یا گروسری نہیں تھا بلکہ ملک پر”اثرانداز“ تھا اوراسکے ملازمین خود کوایک نئی معیشت کے اصلاح پسند تصور کرتے تھے ۔ کمپنی ملک کی اعلیٰ ترین جامعات سے فارغ التحصیل 20تازہ ترین دماغوں سے لیس تھی جنہوں نے کام کرنے کے لیے ایئر لفٹ کے جدید انداز کو سراہا۔
ایئر لفٹ کے لاہور ہیڈ کوارٹر کے ایک سابق پراجیکٹ مینیجر نے ریسٹ آف ورلڈ کو بتایا،”مجھےان لوگوں اور ان کے وژن سے واقعی پیار ہو گیا تھا ،سب سے اہم چیز عزت تھی۔ اور گل، وہ آپ کو متاثر کرتا ہے، وہ زمین سے جڑا ہوا انسان ہے، وہ بہت عاجز اور بہت ہوشیار ہے۔“
ایک اور سابق ملازم نے ریسٹ آف ورلڈ سے کہا،”گل شاید سب سے بہترین افسرتھا جس کے ساتھ میں نے اپنے کیریئر میں کام کیا ہے، اس کی مستقل مزاجی، اس کا نظم و ضبط، اس کی رفتار اور کام کے بارے میں اس کا تعصب بالکل بے نظیر تھا۔“
بہت سے سابق ملازمین نے کہاکہ بینک میں کروڑوں روپے ہونے کے باوجود کمپنی نے ملازمین کو اپنے طور پر اہم مالیاتی فیصلے کرنے کی صلاحیت دی۔لاہور ہیڈآفس کے پروڈکٹ ڈیپارٹمنٹ میں کام کرنے والے ایک سابق ملازم نے کہاکہ”آن لائن نئی سبسکرپشن حاصل کرنا اور کمپنی کے ساتھ معاہدہ کرنا بہت آسان تھا۔ جیسا کہ کوئی کنٹرول نہیں تھا“،ملازم نے کہا کہ”ہمارے پاس فیصلے کرنے کی بہت طاقت تھی ، مثال کے طور پر مجھے ایک لاکھ ڈالر کا سودا کرنے کیلیے کمپنی کو صرف ایک ای میل بھیجنا ہوتی تھی ۔“
بمپر سیریز بی راؤنڈ کے حصول کے بعد ایئر لفٹ نے اپنے ڈیلیوری نیٹ ورک کو تیزی سے پھیلایا، ہر شہر میں متعدد نئے گودام کھولے۔ یہ اس کے 30 منٹ کے گروسری ڈیلیوری ماڈل کے لیے اہم تھا، یہ تجربہ پاکستان میں پہلے کبھی نہیں کیا گیا تھا۔ ریسٹ آف ورلڈ سے گفتگو کرنے والے کم ازکم 5 سابق ملازمین نے بتایا کہ یہ تیز ترتوسیع بھاری قیمت پر ہوئی اور اسے صحیح طریقے سے انجام نہیں دیا گیا جس کا نتیجہ بالآخر کمپنی کی تباہی کی صورت میں نکلا۔
ایک سابق ملازم نے بھاری اخراجات کی مثال پیش کرتےہوئے بتایا کہ اسلام آباد میں ایک گودام کااوسط ماہانہ کرایہ میں کمپنی کو 17لاکھ روپے (تقریباً 10 ہزار430 ڈالر) اور ماہانہ بجلی کے بلوں میں تقریباً 10 لاکھ روپے خرچ ہو تے تھے ۔
کمپنی کے ایک گودام کے سابق منیجر نے بتایا کہ ”ہم ہفتوں یا مہینوں میں نہیں بلکہ دنوں میں پھیلے ہیں۔ تین ماہ میں لاہور میں 23 گودام قائم کیے گئے تھے اور ہر گودام میں 2 سے 3 کروڑ روپے کا سامان موجود تھا ۔آپریشنز ٹیم کے کئی سابق ملازمین کے مطابق،ائیر لفٹ کو ایک نیا گودام قائم کرنے میں کم از کم آٹھ دن لگے۔
کچھ ملازمین نے ریسٹ آف ورلڈ کو بتایا کہ گوداموں کی تیزی سے توسیع ضرورت سے زیادہ اور غیر ضروری تھی۔ اس کا کوئی مطلب نہیں تھا، وہ بغیر کسی وجہ کے پھیل رہے تھے۔ایک اور منیجر نے بتایا کہ اگر کسی علاقے میں 15ہزار کی آبادی ہے تو وہاں تین گوداموں کی کیا ضرورت تھی؟۔
حیدرآباد، لاہور، اسلام آباد اور کراچی میں ائیر لفٹ کے گوداموں میں تعینات 6 ملازمین کے مطابق ان گوداموں کے اندر سامان کے کے انتظام کے طریقہ کار میں ضروری کاروباری ذہانت، حکمت عملی اور چوکسی کا فقدان تھا۔
ایک سابق ڈارک اسٹور منیجر غلام ربانی نے حیدرآباد کے دو گوداموں کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ انہیں اکثر خودکار نظام کی وجہ سے اچانک سامان میں اضافہ کرنا پڑتا تھا۔ سسٹم کے الگورتھم میں خرابیاں فضول ترسیل کو متحرک کر دیتی تھیں ،ایک موقع پر ہمارے گوداموں میں 3،4ہزار کلو دالیں موجود تھیں۔
الاہور میں ایک گودام کےمنیجر نےریسٹ آف ورلڈکو بتایا کہایک مرتبہ اسے بلا ضرورت کوک کی ہزاروں بوتلیں وصول کیں۔ اس نے ائیر لفٹ ہیڈ کوارٹر کو کالز، پیغامات اور ای میلز بھیجے تاکہ انہیں مطلع کیا جا سکے کہ پروڈکٹ کی میعاد ختم ہونے سے پہلے اسے فروخت کرنا ناممکن ہو گا اور تجویز کیا کہ ہیڈکوارٹر کم از کم اسٹاک کو مختلف گوداموں تقسیم کروادے لیکن اسے کوئی جواب نہیں ملا۔
انہوں نے کہا کہ کوک کی ہزاروں بوتلوں میں سے تقریباً تمام کی میعاد ختم ہو چکی تھی اور کسی کو بھی اس بات کی پرواہ نہیں تھی کہ یہ نقصان کیوں ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہاکہ اسلام آباد کے ایک اور آپریشن مینیجر نے کہا کہ انہیں اسی طرح کے حالات میں تقریباً ڈیڑھ لاکھ روپے مالیت کادودھ ضائع کرنا پڑا۔
غلام ربانی نے کہا کہ ڈیڑھ کروڑ آبادی والے شہر کراچی میں گودام میں آپریشن”ایک ہلچل“ تھی۔”آپ کراچی کے گودام میں داخل ہوں توایسا محسوس ہواتا تھا کہ آپ کسی جنگی علاقے میں داخل ہو گئے ہیں،آپ کے پاس رائیڈرز ایک طرف سے چیخ رہے ہوتے تھے اور آرڈر مکمل ہونے کا مطالبہ کررہے ہوتے تھے اور دوسرے سرے سے منیجر چیخ رہے ہوتے تھے
کمپنی کے چمکتے ہیڈ کوارٹر میں بیٹھے ایئرلفٹ ملازمین اور گوداموں میں کام کرنے والوں کے درمیان فرق بالکل واضح تھا۔ گودام کے ایک لیڈ منیجر نے ریسٹ آف ورلڈ کو بتایا کہ”انتظامیہ میں ہر کوئی تھا، یہ وہ نوجوان تھے جو صرف اپنے دفاتر میں رہتے تھے ،سینئر انتظامیہ کبھی بھی گوداموں میں نہیں تھی اور وہ صرف اندر بیٹھ کر زوم پر اپنی میٹنگز کرتے تھے، گوداموں میں موجود مسائل کو چیک کرنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے تھے، جس کا بوجھ مکمل طور پر لائیو آپریشنز ٹیم پر پڑتا تھا۔ “
ربانی نے بتایا کہ کمپنی کی قیادت گوداموں کے باہر بھی دیگر سنگین مسائل کو نظر انداز کر رہی تھی۔ مثال کے طور پر اپنے کاروباری ماڈل کے ایک حصے کے طور پر ائیر لفٹ نے مارکیٹ کی قیمتوں سے کم قیمت پر سامان فراہم کرنے والوں کے ساتھ سودے حاصل کیے اور بچتوں کو منتقل کر کے صارفین کو راغب کیا۔ لیکن دوسرے خوردہ فروش اکثر ایئر لفٹ کی انوینٹری کو کم قیمتوں پر لے لیتے ہیں اور اسے اپنے اسٹورز سے منافع پر دوبارہ فروخت کردیتے تھے۔
ربانی نے بتایا کہ خوردہ فروش سسٹم کو ہیک کرنے کی کوشش کرتے رہے، وہ ہمارے لیے ایک بہت بڑی رکاوٹ تھے کیونکہ ان کے آرڈرز ہمارے ڈیٹا میں ہیرا پھیری کا سبب بن رہے تھے ۔ گودام کے ایک ملازم کی جانب سے ریسٹ آف ورلڈ کے ساتھ شیئر کی گئی ایک ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ کمپنی کے ملازمین ایک خوردہ فروش کے آرڈر کی تکمیل کیلیے 5ٹرالیز میں لیز چپس کے مختلف ذائقوں کےپیکٹ بھر رہے ہیں ۔
ترقی اتنی اچانک تھی کہ پروڈکٹ مینجمنٹ کونقصان کا سامنا کرنا پڑا اور چوری ایک مسئلہ بن گئی۔ گودام کے ایک ملازم نے ریسٹ آف ورلڈ کو ایک واقعے کے بارے میں بتایا جس میں لاہور کے ایک گودام سے 10 لاکھ روپے مالیت کا الیکٹرانک سامان غائب ہو گیا۔ ایئر لفٹ کے پاکستان میں لگ بھگ 80 گودام تھے، تو آئیے تصور کریں کہ اگر ایک گودام میں چوری کی نوعیت اتنی بڑی تھی تو دوسرے گوداموں کو کتنی چوری کا سامنا کرنا پڑتا ہوگا، ہر جگہ چوری ہوتی تھی ۔