چیئرمین سینیٹ کا انتخاب آج ہوگا
ن لیگ کا اداروں پر دھاندلی اور پیپلز پارٹی کا غیر جانبدار رہنے کا بیان
پاکستان کے ایوانِ بالا یعنی سینیٹ کے چیئرمین کے عہدے کے لیے یوسف رضا گیلانی اور صادق سنجرانی کے درمیان مقابلہ ہے جس کے لیے انتخاب جمعے کے روز ہوگا۔
ہر 3 برس کے بعد چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کا مرحلہ آتا ہے۔ آج سینیٹ کے چیئرمین کے لیے حکومتی حمایت یافتہ بلوچستان عوامی پارٹی کے امیدوار محمد صادق سنجرانی اور حزب اختلاف کی جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم کے امیدوار سید یوسف رضا گیلانی کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہورہا ہے۔ جبکہ ڈپٹی چیئرمین کے لیے حکومتی امیدوار مرزا خان آفریدی اور پی ڈی ایم کی طرف سے مولانا عبدالغفور حیدری مد مقابل ہیں۔ صادق سنجرانی دوسری مرتبہ چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں حصہ لے رہے ہیں۔
سینیٹ کے ارکان کی تعداد عملاً 100 کی بجائے 99
سینیٹ کے حالیہ انتخاب کے بعد حکومت کے پاس 48 اور حزب اختلاف کے پاس 52 ووٹ ہیں۔ تاہم 2018 کے سینیٹ انتخاب میں کامیاب ہونے والے مسلم لیگ (ن) کے رہنما اسحاق ڈار کی خود ساختہ جلاوطنی اور حلف نہ اٹھانے کے باعث رکنیت معطل ہے۔ اس طرح سینیٹ کے ارکان کی تعداد عملاً 100 کی بجائے 99 ہے۔ ایوان میں حزبِ اختلاف کے ارکان کی تعداد اس طرح 51 اور حکمراں اتحاد کے ووٹوں کی تعداد 48 ہوگئی ہے۔
لیکن دونوں جانب سے دعوں کے علاوہ جوڑ توڑ اور خریدوفروخت کے الزامات بھی لگائے جاتے رہے ہیں۔ یوں خفیہ رائے شماری میں کون کس کو ووٹ دیتا ہے یہ تو ووٹنگ کے بعد ہی پتہ چل سکتا ہے تاہم پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دینے والے ارکان کے نام گذشتہ انتخاب کی طرح اس مرتبہ بھی پردہ اخفا میں رہیں گے۔
پی ڈی ایم حکومت پر بھاری مگر کچھ بھی ہوسکتا ہے
ایوان بالا میں حکومتی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے اکثریتی پارٹی بننے کے باوجود حزب اختلاف کی جماعتوں کے اتحاد کو حکومت پر عددی اکثریت حاصل ہے۔
پنجاب میں 11 نشستوں پر امیدوار بلامقابلہ سینیٹر منتخب ہوگئے تھے جس کے تحت تحریک انصاف نے 5، مسلم لیگ (ن) نے 5 اور (ق) لیگ نے سینیٹ کی ایک نشست حاصل کی تھی۔ جبکہ 3 مارچ کو 37 نشستوں پر سینٹرز کے انتخاب کے لیے ووٹ ڈالے گئے جس میں تحریک انصاف نے 13 نشستیں حاصل کیں۔ پہلے کی 7 نشستوں سمیت سینیٹ میں 26 نشستوں کے ساتھ تحریک انصاف سب سے بڑی جماعت بن گئی ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی مجموعی طور پر 20 نشستوں کے ساتھ ایوان کی دوسری اور مسلم لیگ (ن) 17 نشستوں کے ساتھ ایوان بالا میں تیسری جماعت ہے۔
بلوچستان عوامی پارٹی کی نشستوں کی تعداد 13، جمعیت علمائے اسلام (ف) کی نشستوں کی تعداد 5، ایم کیو ایم کے ارکان کی تعداد 3، عوامی نیشنل پارٹی کی 2، بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کی 2 اور مسلم لیگ (ق) کی سینیٹ میں ایک نشست ہے۔
دوسری جانب نیشنل پارٹی اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کی 2، 2 نشستیں، جی ڈی اے اور جماعت اسلامی کی ایک ایک نشست ہے۔ جبکہ بلوچستان سے نو منتخب سینیٹر عبدالقادر نے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کر لی ہے۔ اس طرح ایوان بالا میں آزاد سینیٹرز کی تعداد 4 ہے۔ ایک آزاد رکن پیپلز پارٹی میں شامل ہوچکا ہے جبکہ بلوچستان سے نومنتخب آزاد رکن نسیمہ احسان بھی حزب اختلاف کی جماعتوں کے اتحاد کا حصہ ہیں۔
چیئرمین کے انتخاب میں جماعت اسلامی کے واحد سینیٹر کا غیرجانبدار رہنے کا امکان ہے جبکہ اے این پی کے بلوچستان سے سینیٹر عمر فاروق چیئرمین سینیٹ کے لیے صادق سنجرانی کو ووٹ دے سکتے ہیں کیونکہ بلوچستان میں اے این پی کا اتحاد صادق سنجرانی کی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی سے ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ نے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں حکومتی امیدواروں کو ووٹ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
ایم کیوایم کی نومنتخب سینیٹر خالدہ اطیب عدت میں تھیں تاہم انہوں نے حلف برداری اور سینیٹ میں ووٹنگ کے لیے اسلام آباد جانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ وہ شرعی تقاضے پورے کرتے ہوئے سینیٹ میں ووٹنگ کے عمل میں حصہ لیں گی۔
حزب اختلاف کا سینیٹرز کو دھمکانے کا الزام
پاکستان مسلم (ن) کے سینیٹر حافظ عبدالکریم نے دعویٰ کیا ہے کہ انہیں مقدمات میں پھنسانے کی دھمکی دے کر کہا گیا کہ یوسف رضا گیلانی کے خلاف ووٹ دیں۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی رہنما مریم نواز نے الزام لگایا ہے کہ چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کے لیے ان کے سینیٹرز کو حزب اختلاف کے امیدوار کو ووٹ نہ ڈالنے کا کہا گیا ہے۔
تاہم حزب اختلاف کے امیدوار یوسف رضا گیلانی کا کہنا ہے کہ ’اب تک اسٹیبلشمنٹ غیر جانبدار نظر آ رہی ہے۔‘
یہ بھی پڑھیے
یوسف رضا گیلانی کی چیئرمین سینیٹ کے لیےنامزدگی درست ہے؟
وزیراعظم کا پیشکش سے متعلق الزام
وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ ’ چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کے حوالے سے ان کی جماعت کے سینیٹرز کو آفر آنا شروع ہوگئی ہیں۔ ‘
چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کا طریقہ کار کیا ہوگا؟
اگر انتخاب 2 امیدواروں کے درمیان ہو اور دونوں برابر ووٹ حاصل کر لیں تو اس وقت تک انتخاب دوبارہ کروایا جاتا رہے گا جب تک ایک امیدوار دوسرے سے زیادہ ووٹ حاصل نہیں کرلے۔
2 سے زیادہ امیدواروں کی صورت میں اس امیدوار کو منتخب قرار دیا جائے گا جو دیگر اداروں کی مجموعی ووٹوں سے زیادہ ووٹ حاصل کرے۔ مثال کے طور پر اگر ایک امیدوار 50 ووٹ لیتا ہے اور باقی 2 امیدوار مجموعی طور پر 45 فیصد نمبر حاصل کرتے ہیں تو 50 ووٹ والا امیدوار کامیاب قرار پائے گا۔
اگر انتخاب 2 سے زائد امیدواروں کے درمیان ہو اور کوئی امیدوار دیگر امیدواروں کے مقابلے میں مجموعی ووٹوں سے زیادہ ووٹ نہیں لے پائے تو اس صورت میں دوبارہ رائے شماری ہوگی لیکن اس رائے شماری میں سب سے کم ووٹ حاصل کرنے والے امیدوار کو شامل نہیں کیا جائے گا۔ یہ عمل تب تک دہرایا جائے گا جب تک کوئی اور امیدوار مطلوبہ اکثریت نہیں حاصل کر لے۔ 2 سے زائد امیدوار ہونے کی صورت میں ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ سب امیدوار برابر ووٹ حاصل کر لیں۔ ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ دوبارہ رائے شماری سے کس امید وار کو خارج کیا جائے؟
اس صورت میں سینیٹ کے قواعد یہ کہتے ہیں کہ امیدواروں کے ناموں میں سے قرعہ نکالا جائے گا اور جس کے نام قرعہ نکلے گا اسے رائے شماری سے خارج کردیا جائے گا۔
یوسف رضا گیلانی بمقابلہ صادق سنجرانی
موجودہ چیئرمین اور حکومتی امیدوار صادق سنجرانی کے مقابلے میں حزب اختلاف کے امیدوار سیاسی پس منظر کے حامل یوسف رضا گیلانی قد آور شخصیت ہیں جو وفاقی وزیر، اسپیکر قومی اسمبلی اور وزیراعظم رہ چکے ہیں۔ جبکہ صادق سنجرانی چیئرمین سینیٹ بننے سے قبل کبھی بھی کسی صوبائی و قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ممبر نہیں رہے ہیں۔
سینیٹ کے چیئرمین کا انتخاب حکومت کے لیے بڑا چیلنج
حکومت کے لیے اپنے امیدوار کو چیئرمین سینیٹ منتخب کرانا بڑا چیلنج ہے۔ حکومت جانتی ہے کہ اگر معاملہ حکومت کے ہاتھ سے نکل گیا تو حزب اختلاف کا چیئرمین ہونے کے سبب مستقبل میں قانون سازی کے حوالے سے بھی بہت سی مشکلات کاسامنا کرنا پڑے گا۔ چیئرمین سینیٹ کے لیے کامیاب امیدوار کو کم از کم 50 ووٹ حاصل کرنا ضروری ہے۔ اسی لیے حکومت ہر ممکن کوشش کررہی ہے کہ ان کے امیدوار کامیاب ہوجائیں۔
2018 میں صادق سنجرانی کا انتخاب
2018 کے سینیٹ انتخاب میں 103 سینیٹرز نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا تھا۔ صادق سنجرانی 57 ووٹ لے کر چیئرمین سینیٹ منتخب ہوئے تھے۔
جہاں حکومت اور حزب اختلاف دونوں جانب سے جوڑ توڑ کر سلسلہ جاری ہے وہیں دیکھنا ہوگا کہ حزب اختلاف نے یوسف رضا گیلانی کو سینیٹر منتخب کرانے کے لیے (اگر چہ اپوزیشن کے پاس عددی برتری ہے) جس طرح حکومتی ووٹ توڑے تھے کیا وہ چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں بھی حکومتی ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہتی ہے یا حکومت ماضی کی طرح حزب اختلاف کے ووٹ توڑ کر اپنا چیئرمین منتخب کروا لیتی ہے؟
ڈپٹی چیئرمین کون بنے گا؟
حکومت کی جانب سے قبائلی علاقے سابق فاٹا سے تعلق رکھنے والے سینیٹر مرزا محمد خان آفریدی جبکہ اپوزیشن اتحاد کی جانب سے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے مولانا عبدالغفور حیدری کو ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے عہدے کے لیے اُمیدوار نامزد کیا گیا ہے جو 2015 سے 2018 تک ڈپٹی چیئرمین سینیٹ رہ چکے ہیں۔
عبدالحفیظ شیخ جنہیں حالیہ سینیٹ انتخاب میں شکست کا سامنا کرنا پڑا وہ تحریک انصاف کے رکن نہیں ہیں جس کے سبب پی ٹی آئی میں عبدالحفیظ شیخ کو امیدوار بنائے جانے پر تحفظات بھی پائے جاتے تھے اور اس کے منفی نتائج بھی سامنے آئے۔ اسی طرح چیئرمین سینیٹ کے لیے پاکستان تحریک انصاف کے کسی سینیٹر کی بجائے صادق سنجرانی کا انتخاب کیا گیا جن کا تعلق بلوچستان عوامی پارٹی سے ہے۔
سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق یہ صورتحال بھی پی ٹی آئی کے بعض سینیٹرز کو متنفر کر سکتی ہے۔ تاہم سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ وہ مقتدر حلقوں کی حمایت رکھتے ہیں جس کے سبب وہ پہلے بھی اکثریت نہ ہونے کے باوجود کامیاب رہے۔
سینیٹ کی تاریخ میں دوسری مرتبہ چیئرمین کا انتخاب ووٹنگ سے ہوگا
سینیٹ کی تاریخ میں دوسری مرتبہ ایسا ہوگا کہ 9ویں چیئرمین کے انتخاب کے لیے ووٹ ڈالے جائیں گے۔ ماضی یعنی 6 اگست 1973 سے اب تک 12 مارچ 2015 تک 7 چیئرمین سینیٹ بلامقابلہ اور اتفاق رائے سے منتخب کیے گئے ہیں تاہم ماضی کی روایت کے برعکس موجودہ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے انتخاب کے لیے سینیٹ میں پہلی مرتبہ ووٹ ڈالے گئے اور اب دوبارہ چیرمین کے انتخاب کے لیے رائے شماری کا طریقہ اختیار کیا جائے گا۔
پارلیمانی تجزیہ نگار اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ وزیراعظم عمران خان نے اپنی جماعت کے کسی رکن کو چیئرمین سینیٹ بنانے کی بجائے اس اہم عہدے کے لیے بلوچستان عوامی پارٹی کے سینیٹر کا انتخاب کیا۔ یہ معاملہ بھی پارٹی میں ناپسندیدگی کا سبب بن سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی بنیں گے یا یوسف رضا گیلانی؟
پارلیمانی تجزیہ نگاروں کا موقف ہے کہ عبدالحفیظ شیخ کو امیدوار بنانے کا فیصلہ غلط تھا۔ اسی طرح صادق سنجرانی کے انتخاب کا فیصلہ بھی درست نہیں۔ 12 مارچ کو چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کا انتخاب چونکہ خفیہ رائے شماری سے ہوگا جس میں یہ پہلو بھی اپ سیٹ کا سبب بن سکتا ہے۔
صادق سنجرانی کے منفی اور مثبت پہلو
سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ صادق سنجرانی کا بطور امیدوار انتخاب تحریک انصاف میں ناپسندیدگی کا سبب بن سکتا ہے جو ان کا منفی نکتہ ہے۔ جبکہ یوسف رضا گیلانی صادق سنجرانی کے مقابلے میں تگڑے امیدوار ہیں۔ صادق سنجرانی کا وزن صرف اسٹیبلشمنٹ کی وجہ سے ہے۔ جس طرح سینیٹ انتخاب میں اسٹیبلشمنٹ نے خود کو پیچھے رکھا صادق سنجرانی کے معاملے پر بھی وہ پیچھے ہٹ گئے تو صورتحال تبدیل ہو جائے گی۔
مثبت پہلو یہ ہے کہ صادق سنجرانی بطور چیئرمین سب کو ساتھ لے کر چلے اور ان کے کام سے متعلق تمام سینیٹرز سے اچھے تعلقات رہے۔ ان میں سے 52 سینیٹرز اب بھی ایوان بالا میں موجود ہیں۔
قانون سازی میں حکومتی مشکلات بڑھ جائیں گی
سیاسی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ نمبر گیم میں حزب اختلاف کی پوزیشن مضبوط ہے۔ اگر یوسف رضا گیلانی چیئرمین منتخب نہیں بھی ہوتے تب بھی حکومت سادہ قانون سازی آسانی سے نہیں کرسکے گی۔ حزب اختلاف حکومت کے بلوں کی مخالفت کرے گی اور بل مسترد ہو جائیں گے۔ سینیٹ میں چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کا انتخاب خفیہ حق رائے دہی سے ہوگا۔
آج سینیٹ میں کیا ہوگا؟
سینیٹ کے ذرائع نے نیوز 360 کو بتایا کہ ایوان کا اہم اجلاس آج جمعہ کو صبح 10 بجے طلب کیا گیا ہے جس کا 10 نکاتی ایجنڈا بھی جاری کردیا گیا ہے۔ اجلاس میں سب سے پہلے نومنتخب سینیٹرز حلف اٹھائیں گے اور پریزائیڈنگ افسر سینیٹر سید مظفر حسین شاہ ان سے حلف لیں گے۔
جمعے کی نماز سے قبل اجلاس میں وقفہ کیا جائے گا اور پریزائیڈنگ افسر چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سیںیٹ کے انتخاب کا شیڈول جاری کریں گے۔ نماز جمعہ کے بعد چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے کاغذات نامزدگی جمع ہوں گے اور 3 بجے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے لیے ووٹنگ کروائی جائے گی۔
چیئرمین کے منتخب ہونے کے بعد پریزائیڈنگ افسر نئے چیرمین سے حلف لیں گے جس کے بعد نومنتخب چیئرمین، ڈپٹی چیئرمین کا انتخاب کروائیں گے اور پھر کامیاب ہونے والے ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سے حلف لیں گے۔
کون کون سی شخصیات چیئرمین سینیٹ بن چکی ہیں؟
اب تک 8 شخصیات چیئرمین سینیٹ منتخب ہوچکی ہیں۔ 6 اگست 1973 کو حبیب اللہ خان پہلے چیئرمین سینیٹ بنے۔ ان کے بعد غلام اسحاق خان، وسیم سجاد، محمد میاں سومرو، فاروق حمید نائیک، سید نیر حسین بخاری، میاں رضا ربانی اور موجودہ چیئرمین محمد صادق سنجرانی بالترتیب چیئرمین سینیٹ کے منصب پر فائز ہوئے۔
حبیب اللہ خان، غلام اسحاق خان، میاں محمد سومرو 2، 2 مرتبہ 3 برس کے لیے چیئرمین بنے۔ جبکہ وسیم سجاد سب سے زیادہ مرتبہ یعنی 11 برس چیئرمین سینیٹ رہے اور 4 مرتبہ 3، 3 برس کے لیے چیئرمین سینٹ منتخب ہوئے۔ وہ 24 دسمبر 1988 سے 12 اکتوبر 1999 تک چیئرمین رہے۔ فاروق ایچ نائیک، نیئر بخاری اور رضا ربانی ایک، ایک مرتبہ 3 برس کے لیے چیئرمین بنے۔
بلامقابلہ اور اتفاق رائے سے انتخاب
پہلے چیئرمین سینیٹ حبیب اللہ خان سے ساتویں چیئرمین سینیٹ رضا ربانی تک تمام شخصیات ووٹوں کی بجائے بلامقابلہ اور ایوان کے اتفاق رائے سے چیئرمین سینیٹ منتخب ہوئیں۔ جبکہ 12 مارچ 2018 کو پہلی بار سینیٹ چیئرمین کے لیے ووٹ ڈالے گئے۔ ماضی میں چیئرمین سینیٹ کا انتخاب متفقہ طور پر کیا جاتا تھا جس کا مقصد اس بڑے عہدے کو غیر جانبدار اور غیر متنازعہ رکھنا تھا۔
چیئرمین سینیٹ قائم مقام صدر
چیئرمین سینیٹ صدر مملکت کے بعد دوسرا اہم ترین عہدہ ہے۔ صدر مملکت کی غیر موجودگی میں چیئرمین سینیٹ قائم مقام صدر ہوتا ہے۔ جنرل ضیاءالحق کے حادثے میں انتقال کے بعد چیئرمین سینیٹ غلام اسحاق خان قائم مقام صدر اور پھر باقاعدہ صدر منتخب کر لیے گئے تھے۔
ڈپٹی چیئرمین بلوچستان سے بنائے جانے کی روایت
اب تک 12 شخصیات ڈپٹی چیئرمین سینیٹ منتخب ہو چکی ہیں جن میں عبدالمالک بلوچ، مخدوم محمد سجاد حسین قریشی، ملک محمد علی خان، سید محمد فضل آغا، نور جہاں پانیزئی، میر عبدالجبار خان، میر ہمایوں خان مری، خلیل الرحمٰن، میر جان محمد خان جمالی، صابر علی بلوچ، مولانا عبدالغفور حیدری اور اور سلیم مانڈوی والا شامل ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر کا تعلق بلوچستان سے ہے۔
ان تمام شخصیات میں سے کوئی بھی 3 برس سے زیادہ ڈپٹی چیئرمین کے منصب پر فائز نہیں رہا۔
یہ بھی پڑھیے
سینیٹ الیکشن کا کرنٹ شوبز انڈسٹری کو بھی لگ گیا
کم عمر چیئرمین سینیٹ
صادق سنجرانی بلوچستان سے چیئرمین سینیٹ بننے والی پہلی اور کم عمر شخصیت ہیں جو 39 برس کی عمر میں چیئرمین سینیٹ منتخب ہوئے تھے۔
مدت پوری ہونے پر کون سے سینیٹر سبکدوش ہوگئے؟
ایوان بالا کے 52 اراکین 6 سالہ آئینی مدت پوری کرنے کے بعد سبکدوش ہوگئے جن میں راجہ ظفر الحق، سرا ج الحق، رحمٰن ملک، آغا شاہ زیب درانی، عائشہ رضا فاروق، اورنگزیب خان، جان کینتھ ولیم، چوہدری تنویر، ڈاکٹر اسد اشرف، اشوک کمار، ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی، غوث محمد خان نیازی، گیان چند، گل بشریٰ، حاجی محمد خان آفریدی، اسلام الدین شیخ، خوش بخت شجاعت، لیفٹیننٹ جنرل (ر) صلاح الدین ترمذی، لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم اور میاں محمد عتیق شامل ہیں۔
میر کبیر، یوسف بادینی، محمد علی خان سیف، محمد جاوید عباسی، خالد بزنجو، محمد عثمان خان کاکڑ، نجمہ حمید، نعمان وزیر، نصرت شاہین، پرویز رشید، راحیلہ مگسی، سجاد حسین طوری، ثمینہ سعید ،سردار یعقوب خان ناصر، سسی پلیجو، تاج آفریدی اور سلیم ضیاء بھی ریٹائر ہوگئے ہیں۔
48 سینیٹرز آج حلف اٹھائیں گے
یوسف رضا گیلانی اور فیصل واوڈا سمیت 48 نومنتخب سینیٹرز آج حلف اٹھائیں گے جن میں پنجاب سے مسلم لیگ (ق) کے کامل علی آغا، پی ٹی آئی کے اللہ سرور خان نیازی، عون عباس، اعجاز احمد چوہدری، سید علی ظفر، زرقا سہروردی تیمور، مسلم لیگ (ن) کے افنان اللہ خان، ساجد میر، عرفان الحق صدیقی، اعظم نذیر تارڑ اور سعدیہ عباسی، سندھ سے پیپلز پارٹی کے سلیم مانڈوی والا، شیری رحمن، تاج حیدر، شہادت اعوان، جام مہتاب حسین ڈاہر ،فاروق نائیک، پلوشہ خان، پی ٹی آئی کے محمد فیصل واوڈا اور سیف اللہ ابڑو شامل ہیں۔
ایم کیو ایم پاکستان کے سید فیصل علی سبزواری اور خالدہ اطیب، خیبرپختونخوا سے پی ٹی آئی کے محسن عزیز، سید شبلی فراز، لیاقت خان ترکئی، فیصل سلیم رحمٰن، ذیشان خانزادہ، دوست محمد خان، محمد ہمایوں مہمند، ثانیہ نشتر، فلک ناز، گردیپ سنگھ، عوامی نیشنل پارٹی کے ہدایت اللہ خان اور جے یو آئی (ف) کے عطا الرحمٰن ،بلوچستان سے بلوچستان عوامی پارٹی کے پرنس احمد عمر احمد زئی، منظور احمد، سرفرا ز احمد بگٹی، سعید احمد ہاشمی، ثمینہ ممتاز، دنیش کمار، نیشنل پارٹی کے محمد قاسم، اے این پی کے عمر فاروق، جے یو آئی کے مولانا عبدالغفور حیدری، کامران مرتضیٰ، تحریک انصاف میں شامل ہونے والے آزاد امیدوار محمد عبدالقادر اور نسیمہ احسان بھی آج حلف اٹھانے والوں میں شامل ہیں۔
48 اراکین 6 سال کے لیے سینیٹ کے رکن منتخب ہوئے ہیں۔
کون کون سی شخصیات دوبارہ سینیٹر بنی ہیں؟
سینیٹر شبلی فراز، سلیم مانڈوی والا، عبدالغفور حیدری، شیری رحمٰن، فاروق ایچ نائیک، مولانا عطا الرحمٰن، لیاقت خان ترکئی، منظور احمد، محسن عزیز، پروفیسر ساجد میر، سرفراز احمد بگٹی اور ذیشان خانزادہ مزید 6 سال کے لیے سینیٹ کے رکن منتخب ہوگئے ہیں۔