حکومت اور حزب اختلاف دونوں ہی قومی اداروں سے نالاں
ایک طرف حکومت الیکشن کمیشن سے نالاں ہے تو دوسری جانب حزبِ اختلاف پارلیمان اور نیب کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہے۔
حکومت نے الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے پورے کمیشن سے استعفے کا مطالبہ کردیا ہے جبکہ حزبِ اختلاف کو نیب پر اعتماد نہیں ہے جس کا وہ اکثر اظہار کرتی رہتی ہے۔ پاکستان میں حکومت ہو یا حزب اختلاف سب ہی مختلف اداروں سے نالاں ہیں۔
پیر کے روز اسلام آباد میں وفاقی وزراء شبلی فراز اور فواد چوہدری کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر تعلیم شفقت محمود نے کہا کہ ’الیکشن کمیشن ناکام ہوچکا ہے اور غیرجانبدار امپائر کا کردار ادا نہیں کر رہا ہے اس لیے اسے مجموعی حیثیت میں استعفیٰ دینا چاہیے۔ الیکشن کمیشن سے لوگوں کا اعتماد اٹھ چکا ہے تاہم نیا الیکشن کمیشن بننا چاہیے جس پر سب کا اعتماد ہو۔‘
شفقت محمود نے کہا کہ ’عام انتخابات ڈھائی سال بعد ہوں گے اور ضمنی انتخاب ہوتے رہتے ہیں لیکن الیکشن کمیشن پر اعتماد ہونا چاہیے۔ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) قومی اسمبلی اور سینیٹ میں سب سے بڑی جماعت ہے اور اسے بھی الیکشن کمیشن پر اعتماد نہیں رہا۔ دوسری جماعتیں بھی الیکشن کمیشن کی شکایت کرتی نظرآتی ہیں۔‘
واضح رہے کہ الیکشن کمیشن میں حکومتی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے خلاف فارن فنڈنگ کیس 2014 سے زیر سماعت ہے جس کا فیصلہ ممکنہ طور پر آنے والا ہے۔ ایک طرف الیکشن کمیشن سے نالاں حکومت نے چیف الیکشن کمشنر سمیت ادارے کے تمام اراکین سے فوری استعفے کا مطالبہ کیا ہے تو دوسری جانب حزبِ اختلاف پارلیمان اور نیب کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہے یعنی حکومت اور حزب اختلاف دونوں ہی اداروں سے نالاں ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
سینیٹ الیکشن کا کرنٹ شوبز انڈسٹری کو بھی لگ گیا
اگر موجودہ صورتحال کا بغور جائزہ لیا جائے تو بظاہر کوئی ادارہ کسی جماعت کے خلاف فیصلے کرتا ہے یا کسی ادارے سے کسی جماعت کو خطرہ محسوس ہوتا ہے تو اسی ادارے پر عدم اطمینان کا اظہار کیا جاتا ہے۔ سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ سیاسی جماعتوں کو جب کسی ادارے سے خطرہ محسوس ہوتا ہے تو اپنی ساکھ کو بچانے کے لیے اس ادارے پر الزام لگاتی ہیں یا عدم اعتماد کا اظہار کرتی ہیں۔
اِس سے قبل حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والی جماعتیں موجودہ وزیر اعظم کو سلیکٹڈ کہہ کر یہ باور کرانا چاہتی ہیں کہ پارلیمنٹ دراصل برائے نام ہے اور اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے اِسے بھی ختم کر دینا چاہیے کیونکہ حزب اختلاف یہ سمجھتی ہے کہ موجودہ وزیر اعظم اسٹیبلشمنٹ کے کہنے پر فیصلے کرتے ہیں جس سے پارلیمان کی وقعت کم ہوتی ہے۔ تاہم وزیر اعظم کہتے رہے ہیں کہ وہ فیصلے خود کرتے ہیں اور کسی سے ہدایات نہیں لیتے۔ اُن کی فی البدیع تقاریر اِس کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔