پچھلی حکومتوں کے منصوبے کی تکمیل موجودہ حکومت میں
اس اسکیم میں مکان کی قیمت 23 لاکھ 54 ہزار روپے اور فلیٹ 21 لاکھ 54 ہزار روپے رکھی گئی ہے۔
پاکستان میں ایسا کئی بار ہوا ہے کہ پچھلی حکومتوں کے منصوبے کی تکمیل حکومت وقت نے کی ہو یا پھر پچھلی حکومتوں کے منصوبے کو نئے انداز سے آگے بڑھایا ہو۔ تحریک انصاف کے دور حکومت میں یہ دونوں کام ہوئے ہیں یعنی بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کو احساس پروگرام کے نام سے آگے بڑھایا گیا ہے اور کم آمدنی والے افراد کو تعمیر شدہ گھر دینے کے پروگرام کی تکمیل کی گئی ہے۔
دراصل ورکرز ویلفیئر بورڈ وزارت بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کا پروگرام سابق حکومتوں کے دور میں شروع کیا گیا تھا۔ منصوبہ تحریک انصاف کی حکومت نے اپنے دور حکومت میں مکمل کرتے ہوئے ہوئے نیا پاکستان ہاؤسنگ اتھارٹی میں شامل کردیا۔ وزیراعظم عمران خان نے الیکشن سے قبل اعلان کیا تھا کہ ان کی جماعت برسر اقتدار آکر ملک میں 50 ہزار مکانات تعمیر کرے گی تاہم اب تک اس حوالے سے خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہوئی تھی جس پر حزب اختلاف تحریک انصاف کو تنقید کا نشانہ بناتی رہی ہے۔ عام آدمی کے لیے سستے مکان کا خواب اب بھی محض خواب ہی ہے۔تعمیراتی میٹریل کی دن بدن بڑھتی قیمتوں نےعام آدمی کے لیے مکان کےحصول کومذید مشکل تر بنا دیا ہے۔
ملک میں مکانات کی ضرورت
ماہرین تعمیرات کے مطابق پاکستان میں 10 ملین سے زائد گھروں کی قلت کا سامنا ہے اور ملک میں 3.5 افراد ایک کمرے میں رہائش پزیرہیں جبکہ عالمی سطح پر یہ تناسب 1.1 ملین ہے۔ ملک کی تقریباً آدھی شہری آبادی کچی آبادیوں میں رہائش پزیر ہے۔ پاکستان میں ہر سال 3 لاکھ 60 ہزار نئے گھر تعمیر کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ بھی پڑھیے
پاکستان میں آئی ٹی کے شعبے میں ترقی اور برآمدات میں اضافہ
1998کی مردم شماری کے مطابق ملک بھر میں رہائشی یونٹس کی کل تعداد ایک کروڑ 93 لاکھ تھی۔ 67.7 فیصد رہائشگاہیں دیہی علاقوں میں اور 32.3 فیصد شہری علاقوں میں تھیں۔ مجموعی طور پر39 فیصد آبادی کچے مکانوں پر مشتمل تھی، 40 فیصد نیم پختہ جبکہ 21 فیصد مکانات پختہ ہیں۔ مردم شماری کے مطابق اس وقت ملک میں 43 لاکھ رہائشی یونٹس تھے۔ ملک میں سالانہ مکانات کی ضرورت 300،000 یونٹس ہے۔
پاکستان کی آبادی میں ہر سال 2 سے ڈھائی فیصد سالانہ اضافہ ہو رہا ہے جبکہ رہائشی مکانات کی تعمیر اس سے کہیں کم ہے جس کی وجہ سے یہاں رہائشی مکانات کی قلت کا مسئلہ سنگین صورت اختیار کرتا جا رہا ہے۔
منصوبہ 11 برس سے زیر التوا
وفاقی حکومت نے اسلام آباد کے محنت کشوں کو رعایتی نرخوں پر مکانات اور فلیٹ فراہم کرنے کا آغاز کر دیا ہے۔ ورکرز ویلفیئر فنڈز کا تعمیراتی منصوبہ 11 برس سے زیر التوا تھا۔ نیا پاکستان ہاؤسنگ اتھارٹی کے تحت نچلے طبقے کے افراد میں مکانات کی تقسیم کی تقریب کے مہمان خصوصی وزیراعظم عمران خان تھے۔ ان کا تقریب سے خطاب میں کہنا تھا کہ ورکرز ویلفیئر فنڈزکی برسوں پرانی اسکیم بحال کی گئی ہے اور اس کے لیے حکومت نیا قانون لائی ہے۔
وزیراعظم نے اسٹیٹ بینک کو ہدایت کی کہ نجی بینکوں نے مکانات کی تعمیر کے حوالے سے قرضوں کے لئے تقریبا 389 ارب روپے رکھے جائیں اوراس منصوبے پر عمل درآمد کرایا جائے۔ حکومت نے فی مکان 3 لاکھ روپے سبسڈی رکھی ہے جب کہ مکانات کے لئے قرضوں پہ سود کی شرح 5 فیصد مقرر کی گئی ہے۔ وزیراعظم نے دوسرے مرحلے کے تحت مذید 1500 فلیٹس کی تعمیر کا افتتاح کیا ہے۔
وزیراعظم کے بیرون ملک پاکستانیوں سے متعلق معاون خصوصی ذوالفقار عباس بخاری کا کہنا تھا کہ وزیراعظم آئندہ ماہ اسی نوعیت کے منصوبے کا پشاور میں بھی افتتاح کریں گے جہاں مکانات تیار ہیں جبکہ ٹیکسلا کی لیبر کالونی میں بھی 400 مکانات بنائے گئے ہیں۔ تقریب میں وزیراعظم نے 10 مکانات کی الاٹمنٹ کے لئے قرعہ اندازی کی تھی۔ جس کے ذریعے 6 بیواؤں، 2 معذوروں اور 2 مزدوروں کو مکانات الاٹ کئے گئے۔ تمام مکانات اور فلیٹس قرعہ اندازی کے ذریعے دیے جائیں گے۔
اسکیم کہاں واقع ہے؟
ورکرز ویلفیئر بورڈ کا یہ منصوبہ اسلام آباد کے فیز فائیو میں جاپان روڈ پر واقع ہے۔
ورکرز ویلفیئر فنڈز اسکیم میں مکان کی قیمت
اس اسکیم میں مکان کی قیمت 23 لاکھ 54 ہزار روپے اور فلیٹ 21 لاکھ 54 ہزار روپے رکھی گئی ہے۔ قرعہ اندازی میں کامیاب ہونے والوں کو ابتدائی طور پر مکان کی کل قیمت کی 10 فیصد رقم ادا کرنی ہوگی۔ بقایا رقم 20 سال کی اقساط میں ادا کی جا سکے گی۔
1500 مکانات اور فلیٹس کی تعمیر مکمل
لیبر کالونی زون 5 اسلام آباد میں 500 مکانات اور 1008 فلیٹس بنائے گئے ہیں۔ معذور کارکنوں کے لئے 2 فیصد اور بیواؤں کے لئے تین فیصد کوٹہ مختص کیا گیا ہے۔
2 کمروں کا فلیٹ
کم آمدن والے طبقے کو فراہم کیے جانے والے فلیٹس 2 کمروں، کچن، لاؤنج اور بیت الخلاء پر مشتمل ہیں جو مالکانہ حقوق پر فراہم کیے جا رہے ہیں۔
3 ہزار درخواست گزار
ورکرز ویلفیئر فنڈز کے تحت 5 لاکھ سے کم سالانہ آمدن والے 3 ہزار افراد نے مکانات اور فلیٹس کے حصول کے لیے رجسٹریشن کرارکھی ہے
درخواست کے ساتھ کون سی دستاویزات درکار ہیں؟
- کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ کی کاپی۔
- صنعتی ادارے کی انتظامیہ سے تصدیق شدہ سوشل سکیورٹی ای او بی آئی کارڈ کی کاپی۔
- آجر کی طرف سے سرٹیفکیٹ کہ درخواست دہندہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں واقع صنعتی اسٹیبلشمنٹ میں کارکن ہے جس میں ملازمت کی مجموعی مدت 3 برس ہے۔
- تجویز کردہ درخواست فارم کے مطابق آجر اور سی بی اے سے تصدیق شدہ ورکر کی تفصیلات جو مدت ملازمت اور تنخواہ کی تصدیق کرتی ہو۔
- درخواست ہندہ کی جانب سے حلف نامہ کہ نہ تو وہ خود اور نہ ہی اس کے کنبے کا کوئی فرد صوبائی بورڈ یا فنڈ کی کسی بھی رہائشی اسکیم میں رہائشی یونٹ کا الاٹی، کرایه دار، لیزیا مالکانہ حقوق رکھتا ہے۔
- نادرہ سے جاری کردہ فیملی رجسٹریشن سرٹیفکیٹ کی کاپی متعلقہ صنعتی اسٹیبلشمنٹ کی انتظامیہ سے کیریکٹر سرٹیفکیٹ۔
- پاسپورٹ سائزر کی تازہ ترین 2 تصاویر۔
- ایک حلف نامہ جس میں درج ہو کہ درخواست دہندہ 500,000 روپے سے زیادہ مالیت کی منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد کا مالک نہیں۔
5ارب روپے مالیت کا منصوبہ
سرکاری رپورٹ کے مطابق پہلے مرحلے میں 2560 کنال اراضی پر مکانات تعمیر کیے گئے ہیں۔ منصوبے پر 5 ارب 80 کروڑ روپے لاگت آئی ہے۔
کنٹریکٹر نے منصوبہ ادھورا چھوڑ دیا
سرکاری ذرائع کے مطابق پچھلی حکومتوں کی عدم دلچسپی کے باعث منصوبہ تاخیر کا شکار ہوا اور اس دوران فنڈز کی عدم فراہمی کے سبب کنٹریکٹر نے منصوبہ ادھورا چھوڑ دیا تھا۔ لہذا یہ پاکستان کی پچھلی حکومتوں کا منصوبہ تھا جو وہ یا تو توجہ کی کمی یا پھر فنڈز کی قلت کی وجہ سے مکمل نہیں کر پائی تھیں اوراُسے موجودہ حکومت نے تکمیل تک پہنچانے کی کوشش ضرور کی ہے۔