پی آئی اے میں رضاکارانہ علیحدگی کی اسکیم کا فیصلہ

وزرات ایوی ایشن ذرائع نے نیوز 360 کو بتایا ہے کہ پی آئی اے میں 3500 ملازمین کو نوکریوں سے فارغ کرنے کا فیصلہ کئی ماہ پہلے ہوچکا ہے اور اس کا حالیہ کورونا کرائسز سے براہ راست تعلق نہیں۔ موجودہ کورونا لہر نے اس فیصلے میں جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔

پاکستان کا قومی فضائی ادارہ پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن (پی آئی اے) سے ملازمین کی چھانٹی کرنے کے لیے لائحہ عمل طے کیا جا رہا ہے جس میں 3500 ملازمین کو قبل از وقت ریٹائرمنٹ دینے یا رضاکارانہ علیحدگی کی حکمت عملی بنائی جارہی ہے۔

وفاقی حکومت نے ملک کی سب سے بڑی ایئرلائن پی آئی اے میں اصلاحات کرتے ہوئے بڑے پیمانے پر رضاکارانہ علحیدگی کی اسکیم منظور کرلی ہے۔ اس اسکیم کے تحت 3500 ملازمین کو رضا کارانہ طور پر نوکریوں سے فارغ کیا جا سکے گا۔

ذرائع نے نیوز 360 کو بتایا ہے کہ ملازمین کے ممکنہ احتجاج اور مخالفت کی شدت کو کم کرنے کے لیے 12 ارب  80 کروڑ 43 لاکھ روپے کے فنڈز بھی دیئے جائیں گے۔ یعنی ملازمتوں سے علیحدہ ہونے والے ملازمین کو اُن کے بقایاجات کے علاوہ رقوم کی ادائیگی بھی کی جائے گی۔

وزیر اعظم عمران خان کی اصلاحات کمیشن کے سربراہ ڈاکٹر عشرت حسین نے اس سلسلے میں ایک دستاویز ملک کے سب سے بڑے اقتصادی فورم یعنی اقتصادی رابطہ کمیٹی کے سامنے پیش کیا ہے جسے اصولی طور پر منظور کرلیا گیا ہے۔ اب اُسے کابینہ کی حتمی منظوری کے بعد نافذ کیا جائے گا۔

اقتصادی رابطہ کمیٹی کو یہ دلیل بھی دی گئی ہے کہ پی آئی اے میں ملازمین کی فوج ظفر موج موجود ہے جو ادارے پر بوجھ ہے۔ پی آئی اے میں فی جہاز عملے کی تعداد بھی 460 کے لگ بھگ ہے جو دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ یہ ملازمین فارغ کر کے سالانہ 4 ارب 20 کروڑ روپے کی بچت کی جائے گی۔

یہ بھی پڑھیے

16 لاکھ یوروز کا کبوتر خریدنے کا عالمی ریکارڈ

PIA

وزرات ایوی ایشن کے ذرائع نے نیوز 360 کو بتایا ہے کہ پی آئی اے میں 3500 ملازمین کو نوکریوں سے فارغ کرنے کا فیصلہ کئی ماہ پہلے ہوچکا ہے اور اس کا حالیہ کرونا کرائسز سے براہ راست تعلق نہیں۔ موجودہ کرونا لہر نے اس فیصلے میں جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔

 کرونا وائرس نے دنیا بھر کی ہوا بازی کی صنعت کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے اور آئی اے ٹی اے کے مطابق کرونا وائرس کے بعد دنیا بھر میں ایوی ایشن انڈسٹری کا کاروبار 66 فیصد تک تباہ ہوچکا ہے۔ مجموعی نقصانات کا حُجم بھی 415 ارب ڈالرز تک پہنچنے کا تخمینہ لگایا جا رہا ہے۔

پی آئی اے کی 31 مارچ 2020ء کی مالیاتی رپورٹ کے مطابق اس کا خسارہ 253 ارب روپے ہے۔ جبکہ اس پر تمام قرضہ جات اور ادائیگیاں 590 ارب روپے ہیں۔

ادھر وزارت خزانہ کے ذرائع کے مطابق پی آئی اے کے قرضہ جات اور واجبات کا حجم اس وقت 643 ارب روپے ہے۔

پاکستان میں حزبِ مخالف کی جماعت پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما چوہدری منظور کے مطابق پی آئی اے کے ملازمین کی جبری ریٹائرمنٹ کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی۔ اُن کا کہنا ہے کہ پی آئی اے میں ملازمین کی تنخواہیں مجموعی اخراجات محض  12 فیصد ہیں جو انتہائی کم شرح ہے۔ فی جہاز عملے کی تعداد اس لیے سب سے زیادہ ہے کہ پی آئی اے کے جہاز کم ہیں۔

پیپلز پارٹی کا موقف ہے کہ پی آئی اے ملازمین کی تعداد کا مقابلہ ان ایئرلائنز سے کیا جاتا ہے جن کے جہازوں کی تعداد 100 سے زیادہ ہوتی ہے اور پی آئی اے پاس صرف 11 سے 17 فعال جہاز موجود ہیں۔ اگر جہازوں کی تعداد زیادہ ہوجائے تو ہر جہاز پر عملے کی تعداد خود بخود معیار کے مطابق ہوجائے گی۔

اِس اسکیم کو فی الحال فنانس ڈویژن اور اقتصادی رابطہ کمیٹی نے منظور کر لیا ہے اورحتمی منظوری کے لیے کابینہ کے پاس بھیج دیا ہے۔ کابینہ کمیٹی اِسے منظور کرے گی، اِس میں پی آئی اے کی انتظامیہ کی جانب سے مانگی جانے والی رقم فراہم کرے گی اور اُس کے بعد اِس اسکیم کو نافذ کیا جائے گا۔

ملازمین اِس اسکیم کے خلاف احتجاجاً عدالت کا رُخ کرسکتے ہیں لیکن پی آئی اے کے لمیٹڈ کمپنی بن جانے کے بعد یہ مقدمات کتنے مضبوط یا کمزور ہوں گے اِس بارے قانونی ماہرین کا خیال ہے اب یہ ”ماسٹر اور سلیوو‘‘ یعنی مالک اور غلام کے اصول پر طے ہوسکتا ہے۔

متعلقہ تحاریر