ملکی سیاست میں بھونچال کا مرکز بلوچستان
بلوچستان کے مالی سال 2021-22 کے بجٹ کے موقع پر شروع ہونے والا حزب اختلاف کا احتجاج جاری ہے۔
ملکی سیاست میں بھونچال کی ابتداء ہمیشہ بلوچستان سے ہوتی رہی ہے۔ ایک جانب حزب اختلاف کی جماعتیں اسمبلی کے باہر احتجاج کررہی ہیں وہیں دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما اور وزیر تعلیم سندھ یار محمد رند نے اپنی وزارت سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ ادھر پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سینئر رہنما اور سابق سینیٹر عثمان خان کاکڑ کی پر اسرار موت نے صوبے کے قوم پرست حلقوں میں ہلچل اور بے چینی پیدا کردی ہے۔
بلوچستان، پاکستان کا کئی اعتبار سے منفرد صوبہ ہے۔ رقبہ کے لحاظ سے یہ ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے جس کا رقبہ 1 لاکھ 47 ہزار مربع میل ہے جو ملک کے کل رقبے کا 40 فیصد بنتا ہے۔ بلوچستان کی آبادی ملک کے دیگر صوبوں کے مقابلے میں کم ہے مگر یہ صوبہ سیاسی بیداری میں کسی سے کم نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیے
لاہور دھماکے کے مبینہ ماسٹر مائنڈ کے دعوے، تحقیقات نئے موڑ پر
انتخابات میں آج تک بلوچستان میں کبھی کسی ایک جماعت کو اکثریت نہیں ملی، اس لئے یہاں ہمیشہ مخلوط حکومت بنتی ہے۔ اتحادی جماعتوں کو راضی رکھنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے۔ اسمبلی اراکین کی اکثریت وزارتوں کا حصہ ہوتی ہے یا پھر انہیں مشیر کے منصب پر فائز کردیا جاتا ہے۔
بلوچستان کی اپوزیشن جماعتیں کیا چاہتی ہیں؟
بلوچستان اسمبلی کی متحدہ حزب اختلاف میں شامل جماعتوں جمعیت علمائے اسلام (ف)، بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل)، پشتونخوا میپ اور آزاد اراکین کا کہنا ہے کہ بجٹ میں حزب اختلاف کے حلقوں کو نظرانداز کیا گیا، جس کے خلاف اپوزیشن اراکین کئی روز سے احتجاج کررہے ہیں۔
بلوچستان اسمبلی میں مالی سال 22-2021 کا بجٹ پیش کیا گیا تو اس موقع پر 18 جون کو حزب اختلاف کی جماعتوں کے اراکین اسمبلی اور ان کے حمایتیوں نے احتجاجاً بلوچستان اسمبلی کے گیٹ کو تالے لگا دیے تھے۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال اور حکومتی اراکین کو اسمبلی میں داخل ہونے سے روکنے کی کوشش بھی کی گئی تھی۔ اس موقع پر پولیس کی شیلنگ اور ہنگامہ آرائی کے نتیجے میں 3 اراکین اسمبلی زخمی ہوگئے تھے۔ پولیس نے بکتر بند گاڑی سے ٹکر مار کر اسمبلی کا گیٹ توڑ دیا تھا جس کی زد میں آکر ایم پی اے بابو رحیم خان اور عبدالوحید صدیقی زخمی ہوگئے تھے۔ اس موقع پر وزیراعلیٰ جام کمال پر جوتا بھی اچھالا گیا تھا۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ملکی سیاست کے نقشے پر احتجاج تو ہوتے رہے ہیں مگر بلوچستان اسمبلی کی تاریخ میں ایسے احتجاج کی کوئی مثال نہیں ملتی۔
اپوزیشن کا گرفتاری پر اصرار،پولیس کا انکار
حزب اختلاف کے احتجاج پر پولیس نے کوئٹہ کے بجلی گھر تھانے میں ان کے خلاف مقدمہ درج کرلیا تھا، جس پر حزب اختلاف کے اراکین اسمبلی گرفتاریاں دینے کے لیے بجلی روڈ تھانے پہنچ گئے تھے۔ ان کا اصرار ہے کہ مقدمات میں نامزد اراکیں صوبائی اسمبلی کو گرفتار کیا جائے یا ان کے خلاف مقدمات واپس لیے جائیں، تاہم پولیس گرفتاری سے گریزاں ہے۔ کئی روز گزرنے کے باوجود حزب اختلاف کے تقریباً 14 اراکین تھانے کے باہر موجود ہیں۔ حزب اختلاف کے مختلف رہنما ان سے یکجہتی کے لیے وہاں کا دورہ کرتے ہیں۔
اپوزیشن کے بغیر بجٹ کی منظوری
بلوچستان اسمبلی نے اگلے مالی سال2021-22ء کے 570 ارب روپے سے زائد کے بجٹ کی منظوری دے دی ہے۔ اپوزیشن ارکان کا بائیکاٹ بدستور جاری رہا جس کے سبب کٹوتی کی کوئی تحریک پیش نہیں ہوئی۔ اس موقع پر وزیر داخلہ میر ضیاء اللہ لانگو نے کہا کہ 18 جون کو بلوچستان اسمبلی میں بجٹ اجلاس کے موقع پر جو واقعہ پیش آیا اس کے بعد پولیس کو معاملے کی تحقیقات کی ہدایت کی گئی، پولیس کی جانب سے ایف آئی آر درج کی گئی تاہم کوئی گرفتاری عمل میں نہیں لائی گئی۔
وزیر داخلہ بلوچستان میر ضیاء اللہ لانگو کا کہنا ہے کہ میں نے اور دیگر وزراء نے دو مرتبہ تھانے کے باہر بیٹھے حزب اختلاف کے اراکین کے ساتھ مذاکرات کیے مگر ان کا مطالبہ ہے کہ انہیں گرفتار کیا جائے یا ایف آئی آر واپس لی جائے، جس کے بعد سے کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔
اپوزیشن کی اپیل پر شٹر ڈاؤن ہڑتال
ملکی سیاست کے گڑھ بلوچستان میں اپوزیشن جماعتوں کی اپیل پر شٹر ڈاؤن ہڑتال کی گئی اس موقع پر زیادہ تر کاروباری مراکز بند رہے جبکہ منان چوک کوئٹہ میں اپوزیشن کی جانب سے احتجاجی مظاہرہ بھی کیا گیا۔
مقدمہ ختم کرنے کے لئے اسپیکر کی رولنگ
اسپیکر بلوچستان اسمبلی عبدالقدوس بزنجو نے اجلاس میں اپوزیشن اراکین کےخلاف درج ایف آئی آر واپس لینے کے حوالے سے رولنگ دے دی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ امید ہے حزب اختلاف کے اراکین آج ( 26جون) کے اجلاس میں شریک ہوں گے، وزیراعلی بلوچستان جام کمال خان سے جو اختلافات تھے وہ ختم ہوگئے ہیں۔
میڈیا سے گفتگو میں اسپیکرعبدالقدوس بزنجو کا کہنا تھا کہ 18 جون کو اسمبلی میں جو کچھ ہوا اس میں ان کا کوئی کردار نہیں تھا۔
سیکرٹری اسمبلی کا چیف سیکرٹری کے نام خط
بلوچستان اسمبلی کے اجلاس کے بعد حزب اختلاف کے خلاف ایف آئی آر واپس لینے کے حوالے سے اسپیکر بلوچستان کی رولنگ پر سیکریٹری اسمبلی نے چیف سیکریٹری بلوچستان کو خط ارسال کردیا ہے۔
اپوزیشن نے مقدمات کے اندراج کے لیے عدالت سے رجو ع کرلیا
دوسری جانب حزب اختلاف اراکین بلوچستان اسمبلی نے وزیراعلیٰ جام کمال خان اور ایس ایس پی آپریشن کوئٹہ احمد محی الدین کے خلاف مقدمہ کے اندراج کے لئے تھانہ بجلی گھر کوئٹہ میں درخواست دی تھی۔ مقدمے کا اندراج نہ ہونے پر اپوزیشن ارکان نے ایڈیشنل سیشن جج کوئٹہ کی عدالت سے رجوع کرلیا ہے۔
وزیر تعلیم کا استعفیٰ اور وجوہات
وزیر تعلیم بلوچستان اور پاکستان تحریک انصاف کے سینیئر رہنما سردار یار محمد رند نے اپنی وزارت سے استعفیٰ دے دیا ہے اور گورنر کو اپنا استعفیٰ بھجوا دیا ہے۔ انہوں نے اس سے قبل اسمبلی اجلاس میں وزارت سے مستعفیٰ ہونے کا اعلان کیا تھا۔ سردار یار محمد رند کے تین مطالبے ہیں جن پر عمل درآمد نہ ہونے پر انہوں نے مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔
سردار یار محمد رند نے ایک تعلیمی منصوبہ تیار کیا تھا جس کے تحت بلوچستان کے ہر ضلع میں تمام سہولیات سے آراستہ ایکسیلینس سینٹر قائم کئے جانے تھے۔ مگر صوبائی حکومت کی جانب سے اس منصوبہ پر بجٹ میں کوئی پیش رفت نہیں کی گئی ہے۔ ان کا دوسرا اعتراض ہے کہ حکومت ان کے حلقہ میں مخالفین کو فنڈز فراہم کررہی ہے جبکہ ان کا الزام ہے کہ ضلع کچھی میں ایک گروپ نے ان کی اراضی پر قبضہ کرلیا ہے مگر صوبائی حکومت ان کی اراضی کی بازیابی کے لیے کچھ نہیں کررہی ہے، تاہم وزیراعلیٰ جام کمال خان کا موقف ہے کہ یہ ان کا ذاتی معاملہ ہے۔
حزب اختلاف کی عادتیں بگاڑ دیں
وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے کہا کہ بجٹ پیش ہونے سے پہلے اپوزیشن کا بجٹ پر اعتراض غلط تھا۔ بلوچستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ انہوں نے سب سے زیادہ خرچ کیا۔ سردار یار محمد رند ان کے لیے قابل احترام ہیں، وہ ان کے والد کے ساتھی رہے، وہ کبھی ناراض اور کبھی خوش ہو جاتے ہیں۔ عثمان کاکڑ کی موت کی تحقیقات کے لیے ان کے خاندان کو ہر طرح کی تحقیقات کی پیشکش کی ہے۔
انہوں نے کہا ہے کہ پچھلے دو بجٹ میں حزب اختلاف کی تجاویز پر ان کے حلقوں کے لیے پیسے دے کر ہم نے ان کی عادتیں بگاڑ دیں ہیں۔ وزیراعلیٰ نے تصدیق کی کہ گورنر بلوچستان کو سردار یار محمد رند کا استعفیٰ موصول ہوگیا ہے۔
عثمان خان کاکڑ کا جنازہ بلوچستان کا سب سے بڑا اجتماع
ہر آمر کی حکومت کے خلاف پیش پیش رہنے والے پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سینئر رہنما اور سابق سینیٹر عثمان خان کاکڑ کی پراسرار موت نے صوبے کے پشتون علاقوں اور قوم پرست حلقوں میں بے چینی پیدا کردی ہے۔ ان کا جنازہ بلوچستان کے پشتون آبادی والے علاقوں میں اب تک کا سب بڑا اجتماع تھا جس میں بلوچستان کے علاوہ ملک کے مختلف علاقوں سے لوگوں نے شرکت کی۔
عثمان کاکڑ کے قریبی رشتہ داروں کا الزام ہے کہ ان کی موت طبعی نہیں اور انھوں نے موت کی وجوہات کے بارے تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے جبکہ سیاسی حلقے بھی ایسا ہی مطالبہ کررہے ہیں۔ سینیٹ میں بھی عثمان کاکڑ کی موت کی بازگشت سنی گئی اور کئی سینیٹرز نے ان کی موت کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
عثمان خان کاکڑ کی موت، حکومت کا تحقیقات کرانے کا اعلان
صوبائی وزیر داخلہ میر ضیاء لانگو نے عثمان خان کاکڑ کی موت کے حوالے سے ان کے خاندان کو تحقیقات کی پیشکش کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے پاس کوئی ثبوت ہے تو لے آئیں ہم تحقیقات کرانے کے لیے تیار ہیں، وہ جس ادارے یا تحقیقاتی کمیٹی سے کہیں گے ہم تحقیقات کرادیں گے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق ملکی سیاست کے برعکس بلوچستان کی مخلوط حکومت کےلیے بحرانوں سے نمٹنا صوبائی قیادت کے لیے ایک چیلنج ہے، حزب اختلاف نے جس شدت سے احتجاج کیا ہے وہ ملک کے سب سے پسماندہ صوبہ میں پائی جانے والی بے چینی کا بھی عکاس ہے۔ اس صورت حال کی بہتری کے لیے حکومت کو دانش مندی، تحمل اور بردباری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔