نادرا منتشر گھرانوں کے بچوں کی مشکل دور کرے
سندھ ہائیکورٹ نے ایک معذور لڑکی کو کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ جاری نہ کرنے پر نادرا سے جواب طلب کیا ہے، بچی کو کورونا ویکسین نہیں لگ سکی ہے۔
پاکستان میں پہلی مائیکرو فنانس کمپنی "کشف فاؤنڈیشن” قائم کرنے والی روشانے ظفر خواتین کو معاشی طور پر بااختیار بنانے کے لیے سرکرداں ہیں، حال ہی میں انہوں نے اپنی ٹویٹ میں ہمارے سسٹم کی ایک بڑی خرابی کی نشاندہی کی ہے۔
روشانے نے ایکسپریس ٹریبیون میں شائع ہونے والی ایک خبر کے تراشے کی تصویر سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر شیئر کی۔
Ignore the headline “broken family” but the truth is the Nadra system of that requires the father’s consent to get CNIC or passports is a huge hurdle for women headed households. All of this reeks of patriarchy and the man being seen as the head of the household. pic.twitter.com/bfQ10lxO3w
— Roshaneh Zafar (@RoshanehZafar) October 6, 2021
انہوں نے لکھا کہ قومی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کے حصول کے لیے والد کی اجازت درکار ہونا ان خواتین کے لیے بڑی رکاوٹ ہے جو کہ گھر چلا رہی ہیں۔
خبر کے مطابق سندھ ہائیکورٹ نے ایک معذور لڑکی کو کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ جاری نہ کرنے پر نادرا سے جواب طلب کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
الیکشن کمیشن ڈانٹ سکتا ہے، یہ ان کا حق ہے، چیئرمین نادرا
بچی روبینہ کے والد اسے بچپن میں ہی چھوڑ گئے تھے، نادرا نے والد کے شناختی کارڈ کے بغیر بچی کو شناختی کارڈ جاری کرنے سے انکار کیا ہے۔
روبینہ کو شدید مشکلات کا سامنا ہے، اسے کورونا ویکسین نہیں لگائی جارہی، وہ بینک اکاؤنٹ نہیں کھول سکتی، اپنی تعلیم جاری نہیں رکھ سکتی اور سفر بھی نہیں کرسکتی۔
نیشنل ڈیٹا بیس رجسٹریشن اتھارٹی کو اپنے قوانین میں تبدیلی کی اشد ضرورت ہے۔ ملک میں تبدیلی کا دور دورہ ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ نادرا کہ بےتکے قوانین کو بھی تبدیل کر ڈالے۔
کئی مواقعوں پر یہ بات سامنے آئی ہے کہ 60 سالہ بزرگ شہری اپنا شناختی کارڈ بنوانے جائیں تو نادرا کی جانب سے کہا جاتا ہے کہ اپنے والدین کو لے کر آئیں۔
یہ مضحکہ خیز قوانین صرف نادرا ہی میں رائج ہوسکتے ہیں جہاں غیرملکی جاسوسوں اور طالبان رہنماؤں کو پاکستان کا قومی شناختی کارڈ جاری ہوجاتا ہے لیکن اپنے شہریوں کے لیے نت نئے عذر تراشے جاتے ہیں۔
پاکستانی معاشرے میں ایسے لاکھوں افراد ہیں جن کے والدین میں علیحدگی ہوگئی یا درجنوں دوسری وجوہات کی بنا پر بچے اپنے والدین سے ملتے نہیں یا ان کے بارے میں لاعلم ہیں، کسی حکمران نے، کسی ادارے نے سوچا کہ ان بچوں کو سرکاری دستاویزات کے حصول میں کتنی مشکلات درپیش ہوتی ہیں؟
بفضلِ خداوند اسلامی جمہوریہ پاکستان کو قائم ہوئے 74 برس مکمل ہوچکے ہیں، کیا ہی اچھا ہو کہ اب 74 برس بعد کسی سیاسی رہنما کو، کسی بیوروکریٹ کو یا اہم اداروں کے افسران کو ملک میں موجود یتیم، مسکین اور لاوارث بچوں کو سرکاری دستاویزات کے اجرا سے متعلق قوانین میں تبدیلی کا خیال آجائے۔
حکومت، مقتدر اداروں اور نادرا کو پاکستانی شہریوں کے لیے سرکاری دستاویزات کا حصول آسان اور غیرملکی جاسوسوں کے لیے ناممکن بنانے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔