اسلام آباد ہائی کورٹ میں بیان حلفی کی سماعت، رانا شمیم کا عدالت کو مطمئن کرنا ایک بڑا چیلنج
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ ایک انتہائی اہم معاملہ ہے جس پر ہمارے پورے عدالتی نظام کی ساکھ داؤ پر لگی ہوئی ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ آج گلگت بلتستان کے سابق چیف جسٹس رانا شمیم کے بیان حلفی کی سماعت کریں گے۔ سماعت توہین عدالت کے مندرجات کے تناظر میں ہو گی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپنی 16 نومبر کی سماعت میں جسٹس (ر) رانا شمیم ، صحافی انصار عباسی ، دی نیوز کے مالک میر شکیل الرحمان اور اخبار کے ایڈیٹر عامر غوری کو شوکاز نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت 30 نومبر تک ملتوی کی تھی۔
یہ بھی پڑھیے
مریم نواز کی نئی آڈیو لیک، میڈیا مالکان اور اینکرپرسنز خاموش
شازیہ تسلیم سندھ ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کی پہلی خاتون نائب صدر منتخب
واضح رہے کہ دی نیوز کے مالک میر شکیل الرحمان ، عامر غوری اور صحافی انصار عباسی اپنے اپنے جوابات جمع کراچکے ہیں جبکہ عدالت کی جانب سے دیا گئے وقت کے اختتام تک رانا شمیم کی جانب سے جواب جمع نہیں کرایا گیا ہے۔
رانا شمیم کے صاحبزادے رانا احمد حسن کے بیانات
واضح رہے کہ رانا شمیم کے بیٹے رانا احمد حسن نے اے آر وائی کے اینکر پرسن کاشف عباسی کو انٹرویو دیتے ہوئے یہ اعتراف کیا تھا کہ "ان کے والد سابق جسٹس رانا شمیم سندھ میں مسلم لیگ (ن) لائرز فورم کے وکیل رہ چکے ہیں۔”
میزبان نے بار بار سوال کیا کہ تین برس تک رانا شمیم اتنی اہم بات کو چھپا کر کیوں بیٹھے رہے جس پر رانا احمد کے پاس کوئی جواب نہ تھا، وہ کہنے لگے کہ اس کا جواب صرف والد دے سکتے ہیں۔
دوسری طرف جیو نیوز پر شاہزیب خانزادہ نے بھی رانا احمد حسن سے گفتگو کی تھی ۔ انہوں نے پوچھا کہ آپ اس کیس میں اپنے والد سابق جسٹس رانا شمیم کی نمائندگی کررہے ہیں، کیا آپ نے ان سے ملاقات کی؟
رانا احمد حسن نے جواب دیا کہ نہیں اب تک میری اپنے والد سے کوئی ملاقات نہیں ہوئی۔ انہوں نے بتایا کہ والد کی دو سال قبل لندن میں نواز شریف سے ملاقات ہوئی تھی، ان دونوں کی دوستی ہے۔
رانا احمد نے کہا کہ جب نواز شریف جیل میں تھے تو میں پنجاب کا ایڈووکیٹ جنرل تھا اور جیل جا کر ان سے ملاقات کرتا تھا۔
تجزیہ کاروں کا موقف
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ ایک انتہائی اہم معاملہ ہے جس پر ہمارے پورے عدالتی نظام کی ساکھ داؤ پر لگی ہوئی ہے، خود سابق چیف جسٹس گلگت بلتستان رانا شمیم کو اپنے الزامات کے دفاع میں ابھی بہت سے ثبوت پیش کرنے ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں آج کیس کی سماعت ہے دیکھنا یہ ہے کہ رانا شمیم خود حاضر ہوتے ہیں یا نہیں ۔ اور اگر پیش ہوتے ہیں تو اپنے بیان حلفی کے دفاع میں کیا جوابات دیتے ہیں۔ کیونکہ ان کے صاحبزادے جب پچھلی مرتبہ عدالت میں پیش ہوئے تھے تو آئیں بائیں شائیں کررہے تھے۔
تجزیہ کاروں کا مزید کہنا ہے کہ عدالت نے رانا شمیم کے بیان حلفی پر سوموٹو لیا تھا اور شوکاز نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کیا تھا مگر ابھی تک کوئی جواب جمع نہیں کرایا گیا ہے۔ دوسری جانب عدالت میں بہت سارے سوالات اٹھائیں جائیں گے تاہم عدالت کو مطمیئن کرنا رانا شمیم کے لیے ایک مشکل مرحلہ ہوگا۔ متوقع سوالات یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ "انہوں نے بیان حلفی لندن میں کیوں دیا ۔ دوسرا تین سال بعد انہیں بیان حلفی کا کیوں خیال آیا ، پہلی سماعت پر کیوں پیش نہیں ہوئے تھے۔ وغیرہ وغیرہ۔ "
سابقہ سماعت کا خلاصہ
16 نومبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں رانا شمیم کے بیان حلفی سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آزادی اظہار رائے ضروری ہے مگر انصاف کی فراہمی بھی اہم ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر عوام کا اعتماد عدلیہ پر نہ ہو تو یہ بہت پریشانی کی بات ہے۔
دی نیوز کے چیف ایڈیٹر میر شکیل الرحمان سے سوال کیا گیا کہ اگر کوئی بیان حلفی دے دے تو کیا آپ اس کو اخبار کے پہلے صفحے پر چھاپ دیں گے۔ اس پر میر شکیل الرحمان خاموش رہے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے اخبار کے صحافی انصار عباسی سے استفسار کیا کیا کہ انہوں نے بیان حلفی چھاپنے سے پہلے رجسٹرار ہائی کورٹ سے معاونت کیوں نہیں لی۔ عدالت نے کہا کہ حلف نامہ جوڈیشل ریکارڈ کا حصہ نہیں ہے۔