حملے کے بعد عنبرین فاطمہ کے حق میں آواز اٹھانے والوں کو چپ کیوں لگ گئی؟
حملے کے بعد مذمتی بیانات جاری کرنے والوں نے خلع کا دعویٰ دائر کرنے کے بعد عنبرین فاطمہ کے حق میں دوبول بولنا بھی گوارا نہیں کیا
صحافی احمد نوارنی کی سابقہ اہلیہ عنبرین فاطمہ پر مبینہ حملے کے بعد ان کے حق میں آوازیں اٹھانے والے سیاستدانوں کو عنبرین فاطمہ کی جانب سے خلع کا کیس دائر کرنے پر سانپ سونگھ گیا۔
خاتون کے احمد نورانی پر الزامات اور خلع کا دعویٰ دائر کرنے کے بعد کسی سیاسی رہنما یا صحافی نے ان کے حق میں آواز اٹھائی نہ احمد نورانی کے رویے کی مذمت کرنا گوارا کیا۔
یہ بھی پڑھیے
ثاقب نثار کی آڈیو لیک کا پہلا نتیجہ، احمد نورانی سے عنبرین فاطمہ کا خلع لینے کا فیصلہ
احمد نورانی کا ثاقب نثار کے بعد لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید پر بےبنیاد الزام
24نومبر کو لاہور میں پیش آئے واقعے کے بعد سب سے پہلا مذمتی ٹوئٹ مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز نے کیا۔انہوں نے اپنے ٹوئٹ میں لکھا کہ فسطائی حکومت نے ایک بار پھر ایک غیر مسلح اور بے بس عورت پر حملہ کیا ہے ، اس کی کمزوری کو صرف اس وجہ سے نشانہ بنایاجا رہا ہے کیونکہ اس کا تعلق کسی ایسے شخص سے ہے جو انہیں بنیادی طور پر بے نقاب کر رہا ہے ۔
Fascist regime is at it again as they have a go at an unarmed, helpless woman, targeting her vulnerability just because she’s related to someone who is exposing them to the core. I am appalled to say the least but not at all surprised. God be with you Ambreen. pic.twitter.com/lIqvAZIH4d
— Maryam Nawaz Sharif (@MaryamNSharif) November 25, 2021
اپوزیشن لیڈر شہبازشریف نے لکھا کہ صحافی عنبرین فاطمہ، جوتحقیقی صحافی احمد نورانی کی اہلیہ بھی ہیں، پر حملے کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ اس واقعہ کی اعلیٰ سطح پر تحقیقات کرائی جائے اور مرتکب عناصر کو قانون کے مطابق سخت سزا دی جائے۔ صحافت کے لئے اس سیاہ اور بدترین دور میں کالم اور پروگرام بند کرادو جیسے ہتھکنڈے معمول بن چکے ہیں جو پاکستان کے عالمی امیج کو تباہ کررہے ہیں۔حملوں سے سچ کی تڑپ رکھنے والوں کو روکا جاسکتا ہے نہ ہراساں کیاجاسکتا ہے۔
صحافی عنبرین فاطمہ، جوتحقیقی صحافی احمد نورانی کی اہلیہ بھی ہیں، پر حملے کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ اس واقعہ کی اعلی سطحی تحقیقات کرائی جائے اور مرتکب عناصر کو قانون کے مطابق سخت سزا دی جائے۔ صحافت کے لئے اس سیاہ اور بدترین دور میں، کالم اور پروگرام بند کرادو جیسے ہتھکنڈے۔۔/۱
— Shehbaz Sharif (@CMShehbaz) November 25, 2021
سینئر صحافی اور کالم نگار حامد میر نے لکھا کہ اس قسم کی حرکتیں نو آبادیاتی سوچ کی کوکھ سے جنم لیتی ہیں اور یہی وہ سوچ ہے جس کے خلاف قائداعظم نے تحریک پاکستان شروع کی تھی ،اگر آج صحافیوں کے خاندان محفوظ نہیں تو کل کو کسی کا خاندان محفوظ نہیں رہے گا اور پھر فرعونوں کا آخری ٹھکانا لندن نہیں کہیں اور ہوگا۔
اس قسم کی حرکتیں نو آبادیاتی سوچ کی کوکھ سے جنم لیتی ہے اور یہی وہ سوچ ہے جس کے خلاف قائداعظم نے تحریک پاکستان شروع کی تھی ،اگر آج صحافیوں کے خاندان محفوظ نہیں تو کل کو کسی کا خاندان محفوظ نہیں رہے گا اور پھر فرعونوں کا آخری ٹھکانا لندن نہیں کہیں اور ہو گا https://t.co/HblzRFjfYk
— Hamid Mir (@HamidMirPAK) November 25, 2021
سینئر صحافی اور کالم نگار عاصمہ شیرازی نے عنبرین فاطمہ پر حملے کے بعد لکھا کہ ان فاشسٹ ہتھکنڈوں سے نہ صحافی سچ لکھنے سے رُک سکتے ہیں اور نہ ہی جھُک سکتے ہیں۔
احمد نورانی کی اہلیہ اور صحافی عنبرین فاطمہ پر لاہور میں حملے کی اطلاعات ہیں۔ ان فاشسٹ ہتھکنڈوں سے نہ صحافی سچ لکھنے سے رُک سکتے ہیں اور نہ ہی جھُک سکتے ہیں۔ #AhmedNoorani #JournalismIsNotACrime
— Asma Shirazi (@asmashirazi) November 25, 2021
صحافی احمد نورانی کے بیوی بچوں پر حملہ کرواکر آپ نے خود ہی ثابت کردیا کہ نورانی کی اسٹوری 100 فیصد سچی ہے۔اگر آڈیو جھوٹی ہوتی تو سب سے پہلے فرانزک کروایا جاتا نہ کہ فیملی پر حملہ او رفرانزک کرنے والے ادارے کو دھمکیاں دی جاتیں۔
صحافی احمد نورانی کے بیوی بچوں پر حملہ کروا کر آپ نے خود ہی ثابت کر دیا کہ نورانی کی سٹوری 💯 فیصد سچی ہے۔ اگر آڈیو جھوٹی ہوتی تو سب سے پہلے فرانزک کروایا جاتا نہ کہ فیملی پر حملہ اور فرانزک کرنیوالے ادارے کو دھمکیاں دی جاتیں۔
— Gharidah Farooqi (@GFarooqi) November 25, 2021
ان تمام مذمتی بیانات کے بعد احمد نورانی خود سامنے آئے اور ٹوئٹ کی کہ لاہور میں پیش آنے والے ایک واقعے کا ان کی اسٹوری سے کوئی تعلق نہیں ہے۔احمد نورانی کے اس بیان کے ریاستی اداروں کی مذمت کرنے والے تمام سیاسی رہنما اور صحافی مدعی سست گواہ چست کی عملی مثال بن گئے اور چائے کی پیالی میں طوفان لانے کے خواہشمندوں کو چپ کا روزہ لگ گیا۔ لیکن کسی کو اتنی توفیق نہیں ہوئی کہ ایک مبینہ واقعے پر جو ریاستی اداروں کو مخاطب کرکے لمبے چوڑے مذمتی بیانات جاری کیے گئے تھے انہیں واپس لیں یا ان پر معافی مانگ لیں۔
Many media persons and friends are connecting an incident of attack in Lahore with me and my recent story about Justice Saqib Nisar audio. This is incorrect.
I have stated many times & I reiterate that a high-powered judicial commission shud probe all allegations ag Saqib Nisar.— Ahmad Noorani (@Ahmad_Noorani) November 25, 2021
احمد نورانی کی تردید کے بعد یہ خبر یں آنا شروع ہوئیں کہ ان کے اور عنبرین فاطمہ کے تعلقات کشیدہ ہیں جبکہ کچھ یوٹیوبرز نے تویہاں تک کہہ دیا کہ احمد نورانی اپنی دوسری اہلیہ کو طلاق دے چکے ہیں لیکن خاتون کی جانب سے بارہا یہی اصرار کیا گیا کہ وہ ابھی بھی احمد نورانی کے نکاح ۔میں ہیں۔برطانوی نشریاتی ادارے نے انہیں احمد نورانی کی سابق اہلیہ لکھا تو احتجاج ریکارڈ کرایا جس پر بی بی سی نے اپنی خبر میں تصحیح کردی ۔اس بات کا تذکرہ عنبرین فاطمہ نے احمد نورانی کو دیے گئے اپنی تفصیلی انٹرویو میں بھی کیا۔
لیکن اس کے باوجود احمد نورانی یہی اصرار کرتے رہے کہ عنبرین فاطمہ ان کی سابقہ اہلیہ ہیں اور ان کے درمیان رشتہ ختم ہوچکا ہے۔ تاہم عنبرین فاطمہ یہی اصرار کرتی رہیں کہ انہیں طلاق نہیں دی گئی ان کے پاس نکاح نامہ موجود ہے کہ وہ احمد نورانی کی اہلیہ ہیں۔ لیکن صبر اور برداشت کی ایک حد ہوتی ہے، جب رشتہ بچانے کی تمام کوششوں کے باوجود ذلت حصے میں آئی تو عنبرین فاطمہ نے احمد نورانی سے خلع لینے کا دعویٰ دائر کردیا۔
اب صورتحال یہ ہے کہ عنبرین فاطمہ پر حملے کےجن سیاستدانوں اور سینئر صحافیوں نے عنبرین فاطمہ پر حملے کے بعد بلاتحقیق ریاستی اداروں کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا انہیں اس سارے معاملے میں چپ لگ گئی ہے اور خاتون کے حق یا احمد نورانی کی مخالفت میں انہیں دو بول بولنا بھی گوارا نہیں ہوا۔سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سست مدعی کے چست گواہ بننے والوں کو آئندہ کسی واقعے پر بلاتحقیق تبصرہ نگاری سے گریز کرنا چاہیے ورنہ اسی طرح ذلت مقدر بنتی رہے گی۔