ماڈرن کراچی کی تعمیر میں اقلیتوں اور اکثریتوں کا کتنا حصہ؟
1933 سے 1934 تک کراچی کے میئر رہنے والے جمشید نسروانجی رستم جی مہتا پارسی النسل کو جدید کراچی کا بانی کہا جاتا ہے۔
صوبہ سندھ کا دارالحکومت کراچی ، سندھ کے قدیم ترین شہروں میں سے ایک ہے۔ قوم پرست رہنما اور وشوا ہندو پریشد یونیورسٹی ساؤتھ بنگال کے وائس چانسلر فیروز ایدول جی کا کہنا ہے جمشید نسروانجی مہتا پارسی النسل تھے انہوں نے جدید کراچی کی بنیاد رکھی تھی۔
سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹ پر پیغام شیئر کرتے ہوئے وائس چانسلر فیروز ایدول جی نے لکھا ہے کہ "جمشید نسروانجی مہتا 7 جنوری 1886 کو پیدا ہوئے ، برطانوی ہندوستان میں 1933 سے 1934 تک کراچی کے پہلے میئر منتخب ہوئے ، ان کا نام آج بھی "جدید کراچی کے بنانے والوں” میں شمار کیا جاتا ہے۔ وہ پارسی النسل اور زرتشت عقیدے کے پیروکار تھے۔
یہ بھی پڑھیے
پچھلے سال 7 کروڑ شہریوں کو کورونا ویکسین لگائی گئی، وزیراعظم
بلوچستان: سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں پاک فضائیہ کی امدادی کارروائیاں جاری
معروف لکھاری اور فلم میکر دیپک پروانی نے وشوا ہندو پریشد یونیورسٹی کے وائس چانسلر فیروز ایدول جی کو ٹیگ کرتے ہوئے ٹوئٹ کیا ہے کہ "سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کراچی کے ترقی میں زیادہ ہاتھ اقلیتوں کا اکثریت والوں؟ 70 سال سے بھی زائد عرصے میں !!۔”
Jamshed Nusserwanjee Mehta born on 7 January 1886 was elected to become the first Mayor of Karachi from 1933 to 1934 in British India and still remembered as the "Maker of Modern Karachi” #Parsis #Zoroastrianism #Parsi #Zoroastrian pic.twitter.com/4Rss2Fkwu7
— Phiroze Edulji (@PhirozeEdulji) January 8, 2022
So the question is who did it better the minorities or the majorities ? 70 plus odd years later ! https://t.co/lgrrJjNVnX
— Deepak perwani (@DPerwani) January 8, 2022
جمشید نسروانجی مہتا کون تھے؟؟؟
1886 کو کراچی میں پیدا ہونے والے جمشید نسروانجی مہتا جنہیں بابائے کراچی بھی کہا جاتا ہے کا پورا نام جمشید نسروانجی رستم جی مہتا تھا۔ 1919 میں جب کراچی میں انفلوئنزا کی بیماری نے وبا کی شکل اختیار کرلی تو انہوں نے دن رات کی دل کھول کر معاشی اور اخلاقی خدمت کی۔ بیماری کے خلاف لڑنے والی ادوایات کا بھرپور انتظام کیا۔ اپنی عوامی خدمت کی وجہ سے وہ کراچی مقبول ترین رہنما بن گئے۔
بمبئی سے علیحیدگی کے بعد جمشید نسروانجی مہتا 1837 کے عام انتخابات میں سندھ اسمبلی کے آزاد حیثیت میں رکن منتخب ہوئے۔ ہندو برادری کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے جمشید نسروانجی نے سندھ حکومت کے خلاف ہندوؤں کی چھوٹی چھوٹی باتوں کی مخالفت کی جس پر ہندو ووٹرز نے ان پر ہندو رہنماؤں کی حمایت پر دباؤ ڈالا ، جمشید نسروانجی نے دباؤ نہ قبول کرتے اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا۔
صحت کے حوالے سے ان کی خدمات بھی لازوال تھیں ، جمشید نسروانجی مہتا نے اپنی والدہ گل بائی کے نام سے صدر میں ایک میٹرنیٹی ہوم قائم کیا۔
قیام پاکستان کے بعد انہوں نے محسوس کیا کہ سیاست میں غیرمسلم کارکنان کی سیاست میں کوئی گنجائش نہیں اس لیے وہ سیاست سے دستبردار ہو گئے۔









