سپریم کورٹ کا 63 اے سے متعلق فیصلہ، پنجاب میں آئینی بحران مزید سنگین ہوگیا

قانونی ماہرین کے مطابق پنجاب کے وزیر اعلیٰ کی معاملہ اتنا آسان نہ ہوگا کیونکہ سپریم کورٹ نے صدارتی ریفرنس پر سماعت کرتے ہوئے آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کرتے ہوئے منحرف ارکان کے ووٹ کے حوالے سے اپنی رائے دی ہے۔

سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد پنجاب ایک بار پھر آئینی بحران کا شکار ہوتا نظر آرہا ہے ایک مہینے تک پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ پہلے وزیر اعلیٰ کے بغیر چلتا رہا۔ سپریم کورٹ کے صدارتی ریفرنس میں آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح اور منحرف ارکان کے ووٹ کے فیصلے کے بعد دوبارہ پنجاب کے چیف ایگزیکٹو کی سیٹ خطرے میں آگئی ہے۔

حمزہ شہباز شریف کو اس کے عہدے سے برخاست کرنا اپوزیشن تحریک انصاف کےلئے اتنا آسان نہیں ہوگا مگر حکومت اور اپوزیشن کی لڑائی میں نقصان عوام کا ہوگا اور مزید آئینی بحران پیدا ہونے کا خدشہ ہوگا۔

پنجاب میں پارٹی پوزیشن

اس وقت پنجاب میں مسلم لیگ ن کی اتحادی حکومت قائم ہے ، اتحادی حکومت کے مجموعی ارکان کی تعداد 198 پر مشتمل ہے،  جس میں ن لیگ کے 161 ارکان، پیپلز پارٹی کے 7 ارکان، راہِ حق پارٹی 1 رکن، تحریک انصاف کے 25 منحرف ارکان اور چار آزاد اراکین اسمبلی شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

صوابی کی تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ، عمران خان نے مقتدر حلقوں کو پیغام دیدیا

ایم کیو ایم پاکستان نے ملک میں نئے انتخابات کا مطالبہ کردیا

16 اپریل کے روز قائد ایوان کے انتخاب کے وقت حمزہ شہباز کو 197 ووٹ حاصل ہوئے تھے اب سپریم کورٹ کے منحرف ارکان کے متعلق فیصلے کے بعد 197 اراکین میں سے  25 اراکین نکل جانے کے بعد ن لیگ کی اتحادی حکومت 172 ارکان پر رہ جاتی ہے جوکہ خطرے کی گنٹی بچاتی ہے۔

پنجاب کے 371 کے ایوان میں حکومت بننے کیلئے 176 اراکین کے ووٹ سے حکومت بنائی جاسکتی ہے۔ دوسری طرف اپوزیشن یعنی پی ٹی آئی کے پاس تقریباً 173 ارکان موجود ہیں جس میں 158 پی ٹی آئی، 10 ق لیگ، 4 ن لیگ کے منحرف ارکان اور ایک آزاد رکن پنجاب اسمبلی شامل ہیں۔ اس طرح تحریک انصاف اور ق لیگ 168 اراکین سمیت دیگر 8 اراکین کی حمایت حاصل کرنے کے بعد اپنی حکومت بنا سکتے ہیں۔

قانونی ماہرین کے مطابق پنجاب کے وزیر اعلیٰ کی معاملہ اتنا آسان نہ ہوگا کیونکہ سپریم کورٹ نے صدارتی ریفرنس پر سماعت کرتے ہوئے آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کرتے ہوئے منحرف ارکان کے ووٹ کے حوالے سے اپنی رائے دی ہے انہوں نے براہ راست پنجاب حکومت کے رخصت کرنے کی بات نہیں کی۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اس لیے گورنر وزیراعلیٰ کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہہ سکتا ہے جوکہ پنجاب میں نہیں ہے۔

سیاسی مبصرین کے مطابق اگر اسپیکر پنجاب قائم مقام گورنر بن کر وزیر اعلیٰ حمزہ شہباز کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہیں گئے تو ڈپٹی اسپیکر دوست مزاری قائم مقام اسپیکر بن جائے گے جوکہ پہلے سے ن لیگ کی حکومت کے ساتھ ہے۔ اسمبلی میں جہاں ڈپٹی اسپیکر کے خلاف عدم اعتماد موجود ہے وہی اسپیکر کے خلاف بھی عدم اعتماد موجود ہے ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری چوہدری پرویز الٰہی کے خلاف تحریک عدم اعتماد اسمبلی میں پیش کرسکتے ہیں اس طرح معاملہ انتہائی بحران کا شکار ہوسکتا ہے۔

واضح رہے کہ 16 اپریل کو پنجاب اسمبلی میں قائد ایوان کا انتخاب شدید ہنگامہ آرائی کے بعد ہوا، قائد ایوان کے انتخاب میں حمزہ شہباز شریف کو 197 ووٹ ملیں اور پنجاب کے 21ویں وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے تھے۔

متعلقہ تحاریر