کراچی میں موسم گرما میں پانی کا سنگین بحران پیدا ہونے کا خدشہ

پانی کے کوٹہ میں 13 کروڑ گیلن پانی کی چوری، رساؤ 32 فیصد یعنی 18 کروڑ گیلن تک پہنچ گیا۔

کراچی میں پانی کے کوٹے میں 13 کروڑ گیلن کمی ، 18 کروڑ گیلن پانی چوری اور رساؤ کی تصدیق نسپاک کنسلٹنٹ کمپنی نے ورلڈ بینک کی رپورٹ میں پیش کردیا ہے۔

کینال ، نہر سے پانی کی کھلے عام چوری، کنڈوٹ لائن، سائفن، پائپوں سے چوری اور رساؤ کا سلسلہ جاری ہے۔ جس کی وجہ سے کراچی کو پانی کی سپلائی میں ناقابل  تلافی نقصان پہنچایا جارہا ہے۔ اگر اس قسم کی چوری و غیر ذمہ دارانہ رویہ نہ بدلہ اور یہ سلسلہ جاری رہا تو اگلے ماہ موسم گرما میں پانی کا سنگین بحران پیدا ہونے کا خدشہ ہے، لیکن اس سے سندھ حکومت کو کیا کرنا۔

یہ بھی پڑھیے

میرا قائد الطاف حسین ہے،پی ٹی آئی ختم ہوجائے گی ،عامر لیاقت

نور مقدم قتل کیس کا ٹرائل مکمل،عدالت 24 فروری کو فیصلہ سنائی گی

کراچی تو ان کیلئے سونے کی چڑیا ہے خاص طور پر پانی کے کاروبار میں کروڑوں کی آمدنی ہے۔ سندھ حکومت چین کی بانسری بجا رہی ہے۔ کراچی میں پانی کی یہی صورتحال برقرار رہی تو شہر کے مختلف علاقوں میں فسادات پھوٹنے کا خطرہ بڑھ جائے گا۔

اس سلسلے میں کراچی پی ٹی آئی کے رکن سندھ اسمبلی محمد علی عزیز جی جی نے سندھ حکومت کو دھمکی ہے کہ اگر اس نے کراچی والوں کے ساتھ اپنا رویہ نہ بدلا اور اس شہر سے مال تو بناتے رہے لیکن اس کے ساتھ سوتیلوں جیسا رویہ نہ بدلہ تو وہ اپنے حلقے میں مظاہرے بھی کریں گے اور سندھ اسمبلی پر بھوک ہڑتال کریں گے۔

آج سے 40 سال قبل کراچی میں سابق صدر ضیاء الحق کے دور میں 1200 کیوسک (یعنی 650 ملین گیلن یومیہ پانی) کا کوٹہ طے کیا گیا تھا، لیکن اب تک 13 کروڑ گیلن یومیہ کی فراہمی بھی نہ ہوسکی اور کٹوتی کے باوجود پانی کا کوئی منصوبہ شروع نہ ہوسکا۔

کراچی کا نیا کوٹہ 1200 کیوسک یعنی 65 کروڑ گیلن پانی کا کوٹہ منظوری کے بغیر کراچی کا میگا پروجیکٹ K-4 منصوبہ کا ایک بار پھر واپڈا آغاز کررہا ہے۔

نسپاک کنسلٹنٹ کی رپورٹ پر سندھ حکومت نے 65 ملین گیلن یومیہ پانی کا منصوبہ کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ اور 65 ملین گیلن پانی کا دوسرا منصوبہ پبلک پرائیویٹ یونٹ سندھ کی سرمایہ کاری کے تحت مکمل کیا جائے گا۔

منصوبے کی تکمیل چار سال میں مکمل ہو گی۔ دونوں منصوبوں پر تقریبا 40 ارب روپے خرچ کا اندازہ لگایا گیا ہے، جبکہ موجودہ نہریں اور کینالوں کے پانی کی چوری کو روک تھام کے لئے پانی کی بعض مقامات پر نہریں اور کینالوں اور دیگر مقامات پر 16 اوپن میٹر لگانے کا اصولی فیصلہ بھی کیا گیا ہے۔

ان میٹرز کی سیٹلائٹ (GIS) کے ذریعہ نگرانی کی جائے گی۔ منصوبہ پر ورلڈ بینک مالی امداد دیں گے۔ اس ضمن میں چیف انجینئر ظفر پلیجو نے اس کی تصدیق کی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کراچی کے پانی کے کوٹہ کی فراہمی کو کنجھر جھیل سمیت تمام کینال کی نگرانی کی جائے گی۔ اس منصوبہ پر سیمنس کمپنی سے ابتدائی میٹرز کی تنصیبات پر غور وخوص کیا گیا۔ اوپن کینال پر اپنی نوعیت کا پہلا ادارہ ہوگا جہاں کینالوں پر پانی کی فراہمی کے نگرانی پر ڈیجیٹل کمپیوٹرائز میٹرز لگائیں جائیں گے۔

واضح رہے کہ انڈس سے پانی کی فراہمی کے منصوبہ میں پہلی 1959ء میں 10 ملین گیلن دھابیجی، دوسرے فیز میں 1971ء میں 77 ملین گیلن دھابیجی، تیسرے فیز 1978ء میں 80 ملین گیلن دھابیجی، چوتھے فیز میں 1997ء میں 82 ملین گیلن دھابیجی، K-2 منصوبہ96 ملین گیلن 1998ء دھابے جی، K-3 منصوبہ 124ملین گیلن 2006ء، گھارو سے ،29 ملین گیلن 2003ء اور حب ڈیم سے 100ملین گیلن 1984ء فراہم کیا جارہا ہے جبکہ 26 ملین گیلن پاکستان اسٹیل، 7.5 ملین گیلن پورٹ قاسم اتھارٹی اور مجموعی طور پر انڈس سے 49 کروڑ 80 لاکھ گیلن اور حب ڈیم سے 10 کروڑ گیلن یومیہ پانی فراہم کیا جارہا ہے۔

کراچی کا انڈس سے 1200 کیوسک یعنی 65 کروڑ 40 لاکھ گیلن یومیہ پانی فراہمی کے کوٹہ میں 6 کروڑ 50 لاکھ گیلن پانی میں بچ جانے والے پانی کا منصوبہ زیر التواء ہے۔

کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کی رپورٹ اور ماہرین کا کہنا تھا کہ مجموعی طور پر پانی کی چوری اور لائنوں میں رساؤ کے باعث 30 فیصد پانی ضائع ہو رہا ہے، لیکن انڈس سے پانی کے کوٹہ میں کمی اور چوری کا سلسلہ جاری ہے۔

جاپان کی تنظیم جائیکا کے پانی سیوریج پر کراچی کا ماسٹر پلان 2007ء کے تحت آبادی کا تیزی سے دباؤ بڑھنے پر تا حال کراچی میں 650 ملین گیلن پانی یومیہ کمی کا ریکارڈ موجود ہے اور ڈیفنس سٹی (فیزنائن) سپرہائی وے، بحریہ ٹاون، فضائیہ ہاوسنگ، ائیرپورٹ سیکورٹی فورس ہاوسنگ پروجیکٹ،نیول ہاوسنگ، ایجوکیشن سٹی، تیسر ٹاون،شاہ لطیف ٹاون، ہاکس بے اسکیم، نجی بلڈرز ہاوسنگ پروجیکٹ، پرئیوایٹ ہاوسنگ سوسائٹیز،نئے صنعتی زون،نادران بائی پاس سمیت دیگر رہائشی اور تجارتی منصوبہ میں پانی کی کمی کا سامنا ہے۔

انڈس کے مختلف ذرائع سے ملنے والے پانی کینالوں، شائفن،کنڈیوٹ اور کراچی تک پہنچنے والے پمپنگ اسٹیشنوں تک اعداد وثمار میں فرق موجود ہے، ماضی میں کراچی کے ملنے والے کوٹے پر جانچ پٹرتال اور نگرانی سمیت پر مجرمانہ خاموشی اختیار کررکھا ہے۔

اس بارے میں سابق مینجنگ ڈائریکٹر خالد محمود شیخ نے ڈپٹی مینجنگ ڈائریکٹر ٹیکنکل سروسز اسد اللہ خان کی سربراہی میں 5 رکنی کمیٹی میں دیگر افسران شامل ہیں، جس نے کام شروع نہ کیا جبکہ کمیٹی نے محکمہ آبپاشی، محکمہ منصوبہ بندی اور محکمہ بلدیات سمیت دیگر اداروں سے رپورٹ طلب کی گئی ہے۔

کراچی کو انڈس سے شہر پہنچنے والے پانی میں اعدادشمار میں نمایاں فرق کا کھوج لگائیں گے اور اپنی رپورٹ میں کینالوں، شائفن، کنڈیوٹ، لائنوں سے چوری ہونے والے پانی کا سدباب بھی کیا جائے گا۔

اوپن ڈیجیٹل میٹرز کی تنصیبات کرنے میں کے جی فیڈر کینال،لنک کینال،گجرو کینال،ہالے جی،گھارو، کنجھر جھیل،کلری فیڈرز اورحب ڈیم لگائیں جانے کا منصوبہ ہے۔

کراچی واٹراینڈ سیوریج بورڈ کے ذمہ دار افسران کا کہنا ہے کہ ڈیجیٹل کمپیوٹرائز میٹرز لگانے کا منصوبہ اس قبل بھی شروع کیا گیا تھا اور ورلڈ بینک کی آڑ میں شروع ہونے والے اس منصوبے کا نگران بھی شکیل قریشی کو بنایا گیا تھا۔

اس سے قبل منصوبہ کے ڈائریکٹر شکیل قریشی نے سابق ناظم کراچی مصطفی کمال کے دور 2009ء میں کراچی میں 66 کروڑ روپے کی خطیر رقم کے فنڈز کے 54 میٹرزکی اسکینڈل میں بھی ملوث تھے۔

لگتا ہے چوری شدہ میٹرز کو ورلڈ بینک کی آڑ میں دوبارہ لگانے کا منصوبہ ہے۔ کراچی میں پانی کی فراہمی میں بڑے پیمانے پر بدعنوانی میں ملوث شکیل قریشی پر قومی احتساب بیورو(نیب) کراچی میں تحقیقات مسلسل زیر التواء ہے۔ شاید یہاں بھی شکیل قریشی کی چمک کام کر گئی ہے،اسی لیئے نیب کراچی حسب معمول ڈیلے ٹیکٹس پر کاربند ہے۔

متعلقہ تحاریر