یوکرین کے امیر ترین پاکستانی بزنس مین محمد ظہور جنگ سے پریشان

پابندیوں کا اثر صرف روسی حکومت پر ہی نہیں بلکہ ان کاروباری شخصیات پر بھی ہوگا جن کا کاروبار روس اور یوکرین میں پھیلا ہوا ہے

روس کی جانب سے یوکرین پر جارحیت کے نتیجےمیں  امریکہ سمیت مغربی ممالک نے روس پر سخت اقتصادی پابندیاں عائد کی ہیں ان اقتصادی پابندیوں کا مقصد روس کی معیشت کو مفلوج کرنا اور صدر ولادیمیر پوتن کو ان کی فوجی مہم جوئی پر سزا دینا ہے۔

کسی بھی ملک پر دوسرے کسی ملک یا ادارے کی جانب سے  اقتصادی یا سفارتی پابندیاں اس لیے لگائی جاتی ہیں تاکہ مخالف کو ممکنہ جارحیت یا بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی سے روکا جا سکے۔ ان میں فضائی اور سفری قدغنیں اور اسلحے کی فروخت پر پابندیاں بھی شامل ہو سکتی ہیں۔  روس اور یوکرین کے درمیان تنازع  نےجہاں دنیا کے مختلف ممالک نے مختلف پابندیاں عائد کی ہیں  ان پابندیوں کا اثر صرف روسی حکومت پر ہی نہیں بلکہ ان کاروباری شخصیات پر بھی ہوگا جن کا کاروبار روس اور یوکرین میں پھیلا ہوا ہے ۔

یہ بھی پڑھیے

یوکرین کیخلاف جارحیت، روس سے چیمپئینز لیگ کی میزبانی چھین لی گئی

یوکرین پر جارحیت کے بعد روس اور مغربی دنیا آمنے سامنے

روسی جارحیت کے باعث  جن کاروباری شخصیات کا مستقبل داؤ پر لگاہوا ہے ان میں   پاکستان سے تعلق رکھنے والے 66 سالہ محمد ظہور بھی ہیں  جن کے یوکرین میں اربوں کے اثاثے ہیں، محمد ظہور سنہ 1974 میں  اسکالرشپ پر  سویت یوکرین  آئے تھے  تعلیم مکمل کرنے کے بعدوہ 1987 میں وہ ماسکو منتقل ہوئے جہاں انھوں نے میٹلز رشیا کے نام سے اپنی کمپنی کی بنیاد رکھی جو بعد میں آئی ایس ٹی آئی ایل گروپ میں تبدیل ہوکر دنیا کے اسٹیل کے 20 بڑے گروپوں میں شامل ہوگئی تھی جس کی سالانہ برآمدات دو ملین ٹن تک پہنچ چکی تھیں۔

محمد ظہور یوکرین کی بڑے کاروباری شخصیات میں شمار ہونے لگے  2008 میں انہوں نے اپنی دونیستک اسٹیل مل ایک روسی رکنِ پارلیمان کو 700  ملین سے ایک  ارب ڈالر کے درمیان فروخت کی۔جس کی سرمایہ کاری کا حجم 400 ملین ڈالر سے زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ یوکرین میں محمدظہور کی ملکیت میں لیپ زگ کے نام سے ہوٹل، دفاتر، فلم اینڈ ٹی وی سٹوڈیو، پلاسٹک کی مصنوعات  بنانے والی کمپنی الیانا، ٹرمینل لاجسٹکس اور کیف پوسٹ نامی اخبار بھی  محمد ظہور کی ملکیت ہے۔

جب سنہ 2014 میں روس نے  کریمیا پر قبضہ کیا تو محمد ظہور کے بہت سے اثاثے بھی کریمیا میں رہ گئے۔ اس حوالے سے انہوں نے ایک انٹرویو کے دوران کہا تھا کہ نہ تو روس کی جانب سے ان کے اثاثے واپس کیے گئے ہیں اور نہ ہی انہیں ایسی کوئی امید ہے ۔

متعلقہ تحاریر