منی لانڈرنگ کیس، سلمان شہباز ، طاہر نقوی اور ملک مقصود کے وارنٹ گرفتاری جاری
جج اعجاز حسن اعوان نے ریمارکس دیے کہ میں نے تو اشتہاری قرار دینے کا آرڈر جاری کر رکھا ہے۔
وزیر اعظم شہباز شریف اور وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز 16 ارب روپے کی منی لانڈرنگ سے متعلق کیس کی سماعت کے 28 مئی تک ملتوی، عدالت نے مقدمے میں نامزد سلمان شہباز سمیت دیگر ملزمان کو اشتہاری قرار دینے کی درخواست میں نامزد سلمان شہباز ، ملک مقصود سمیت دیگر ملزمان کے وارنٹ جاری کردیئے۔
خصوصی عدالت کے جج اعجاز اعوان نے کیس کی سماعت کی اس دوران دلائل دیتے ہوئے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے وکیل نے کہا کہ اس مقدمے میں تین ملزمان اشتہاری ہیں، ملزمان کے خلاف کارروائی کی درخواست دی ہے، تمام ملزمان پر ایک ساتھ ہی فرد جرم کی جائے۔ ایف آئی اے کے وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ جو تین ملزمان اشتہاری ہیں ان کے خلاف ضابطے کی کارروائی مکمل کی جائے۔
یہ بھی پڑھیے
کمالیہ: فلاحی تنظیم کے منصوبوں پر پنجاب حکومت کے بینرز آویزاں
پنجاب اسمبلی میں تحریک انصاف کے25منحرف ارکان ڈی سیٹ قرار
عدالت نے ریمارکس دیے کہ اشتہاریوں کے خلاف تو ضابطے کی کارروائی مجسٹریٹ کی عدالت سے ہو چکی ہے۔ پراسیکیورٹر نے بھی عدالت سے استدعا کی کہ جو ملزمان اشتہاری ہیں ان کے خلاف اشتہاری کی کارروائی مکمل کریں، اگر اس کیس کو ایسے ہی لے کر چلا گیا تو آگے جا کر ملزمان کو فائدہ ہوسکتا ہے۔ عدالت نے استفسار کرتے ہوئے کہا کہ یعنی آپ کہہ رہے ہیں گزشتہ پروسکیوشن نے 4 ماہ ملزمان کو فائدہ دیا۔
سماعت کے دوران شہباز شریف کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ 2008 سے 2018 کے دوران کے جوالزامات لگائے گئے ہیں، ان میں سے بہت سارے الزامات کو پروسیکیوشن ٹیم نے چالان میں ختم کر دیا ہے، کہا گیا کہ جعلی کمپنیز کے ذریعے معاملات کو چلایا گیا ہے۔ ایڈووکیٹ امجد پرویز نے عدالت کو بتایا کہ کہا گیا تھا کہ ایک اکاؤنٹ میں 2 ارب روپے سے زائد کی ٹرانزیکشنز ہوئی تھیں، سابقہ تفتیشی ٹیم نے ایف آئی اے میں جو الزامات لگائے ان میں سے متعدد الزامات کو چالان میں شامل ہی نہیں کیا گیا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ایف آئی آر اور چالان میں زمین آسمان کا فرق ہے، شہباز شریف کے خلاف ساری تحقیقات کی سربراہی سابق مشیر احتساب نے کی۔
وکیل امجد پرویز نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ جن 14 اکاؤنٹس کا ذکر ہوا وہ سب بینکنگ چینل کے ہیں، اس کیس میں ڈیڑھ سال تک بے بنیاد پروپیگنڈا کیا گیا، ملزمان نے بغیر ثبوت کے بدنامی برداشت کی۔ انہوں نے کہا کہ لگتا ہے ایف آئی آر نیٹ فلیکس چینل سے متاثر ہو کر لکھی گٸی ہے، نیٹ فلیکس پر فلمیں بہت آتی ہیں یہ بھی ایک فلمی ایف آئی آر ہے۔
جج اعجاز حسن اعوان نے ریمارکس دیے کہ میں نے تو اشتہاری قرار دینے کا آرڈر جاری کر رکھا ہے، جس پر خصوصی پراسیکیوٹر فاروق باجوہ نے عدالت کو بتایا کہ کوئی بھی قانونی نکتہ چھوڑنے پر ملزم فائدہ لے سکتے ہیں۔
عدالت نے استفسار کیا کہ 4 ماہ سے پروسکیوشن کیوں خاموش رہی ہے؟ جس پر خصوصی پراسیکیوٹر فاروق باجوہ نے کہا کہ میں پروسکیوشن کی طرف سے پیش ہوا ہوں یہی گزارش ہے کہ چالان میں اشتہاری ملزموں کے خلاف ضابطے کی کارروائی کی جائے۔
عدالت نے سلمان شہباز سمیت دیگر کو اشتہاری قرار دینے کی درخواست پر محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف کے صاحبزادے سلمان شہباز، طاہر نقوی اور ملک مقصود ملزمان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردئیے۔
سماعت کے موقع پر وزیر اعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ لندن کی این سی اے میں میرے خلاف تحقیقات کروائی گئیں لیکن کرپشن کا ایک روپیہ بھی ثابت نہیں ہوسکا، میں برطانیہ میں رہا کشکول تو نہیں اٹھانا تھا وہاں کاروبار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ میرے خلاف کرپشن کے سیاسی کیسز بنائے گئے ہیں۔
شہباز شریف کا کہنا تھا کہ 10 سال بطور خادم اعلیٰ کام کیا لیکن سیلری نہیں لی، میری کروڑ روپے کی تنخواہ بنتی ہے لیکن نہیں لی۔ شہباز شریف نے کہا کہ میں نے سرکاری دورے بھی اپنی جیب سے کیے، سرکاری گاڑی میں پیٹرول بھی اپنی جیب سے ڈالواتا تھا، قوم کے اربوں روپے بچائے۔
وزیر اعظم کے وکیل نے بتایا کہ 18 دسمبر کو ایف آئی اے کی جانب سے شہباز شریف کو جیل میں سوالنامہ دیا گیا تھا، میرے مؤکل سے تفتیش کی گئی، 8 جنوری 2021 کو میرے مؤکل سے جیل میں تفیش کی گئی تھی۔ دلائل جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 8 جنوری سے جون 2021 تک اس مقدمے میں ایف آئی اے مکمل خاموش رہی جس کے بعد لاہور ہائی کورٹ نے منی لانڈرنگ کیس میں شہباز شریف کی ضمانت منظور کی۔
انہوں نے کہا کہ آمدن سے زائد اثاثوں اور منی لانڈرنگ کیس میں میرٹ پر ضمانت منظور کی گئی تھی، 15 جون 2021 کو ایف آئی اے نے شہباز شریف کو نوٹس بھیج دییے،5 ماہ کی خاموشی کے بعد نوٹس بھیجا گیا، یہ نوٹس اس وقت بھیجا گیا جب بجٹ پیش ہونے والا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ شہباز شریف اور حمزہ شہباز قانون کی بالادستی پر یقین رکھتے ہیں، شہباز شریف اور حمزہ شہباز وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ ہیں پھر بھی عدالت کے سامنے پیش ہیں۔ جس کے بعد عدالت نے کیس کی سماعت 28 مئی تک ملتوی کردی۔