پی ڈی ایم کے استعفے اور مجبوریاں

اگر پی ڈی ایم نے قومی اسمبلی سے استعفے دیئے تو حکومت کے لیے صورتحال تشویشناک ہوجائے گی۔

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) قومی اسمبلی سے بڑے پیمانے پر استعفیٰ دینے پر غور کر رہی ہے۔ اس سلسلے میں آئندہ ہفتے حتمی فیصلے کا اعلان کیا جائے گا۔

یہ اقدام حکومت پر دباؤ ڈالنے کے لیے اٹھایا جارہا ہے۔ حزب اختلاف کی جماعتوں کے اتحاد کا ماننا ہے کہ قومی اسمبلی سے استعفوں سے انہیں حکومت کو اقتدار سے بےدخل کرنے میں مدد ملے گی۔

کون کتنی نشستوں پر قابض ہے؟

قومی اسمبلی میں موجودہ نشستوں کی تقسیم کے مطابق پی ٹی آئی کے پاس 156 سیٹیں ہیں۔

حزب اختلاف کی دو بڑی جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کے پاس بالترتیب 83 اور 55 نشستیں ہیں۔ جبکہ متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) کُل 15 نشستوں پر براجمان ہے۔ یہ تمام نشستیں مل کر 153 بنتی ہیں۔

پی ڈی ایم کے استعفے سے کیا ہوگا؟

اگر پی ڈی ایم نے قومی اسمبلی سے استعفے دیئے تو حکومت کے لیے صورتحال تشویشناک ہوجائے گی۔ تقریباً 150 نشستوں پر انتخابات ‘منی الیکشن’ کروانے کے مترادف ہوں گی۔

یہ بھی پڑھیے

کیا پی ڈی ایم تاریخ بدل دے گی؟

لہٰذا حکومت سخت اضطراب کا شکار ہوسکتی ہے اور حکومت کی مدت پوری ہونے سے قبل ہی نئے انتخابات ہوسکتے ہیں۔

رکاوٹیں کیا ہیں؟

حزب اختلاف کی جماعتوں کے لیے استعفوں کا اقدام آسان نہیں ہوگا۔

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان حزب اختلاف کی دیگر دو جماعتوں پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کو آخری حد تک لے کر جانا چاہتے ہیں۔

مسلم لیگ (ن) کے رہنما محمد زبیر نے نیوز 360 سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ‘اسمبلی سے استعفیٰ ایک آپشن ہے، لیکن پی ڈی ایم اب تک کسی حتمی فیصلے پر نہیں پہنچی ہے’۔

محمد زبیر نے مزید کہا کہ ‘بڑے پیمانے پر استعفے دینے سے حکومت پر مزید دباؤ پڑے گا کیونکہ ضمنی انتخابات کا انعقاد آسان نہیں ہوگا’۔

یہ بھی پڑھیے

پی ڈی ایم صاف چھپتی بھی نہیں سامنے آتی بھی نہیں

متعلقہ تحاریر