ہلکا بستہ پروگرام متعارف کرادیا لیکن عمل درآمد نہیں ہوسکا
خیبرپختونخوا حکومت نے اسکولوں میں بچوں کو سہولیات کی فراہمی اور تعلیمی ایمرجنسی کے دعووں کو عملی شکل دینے کے لیے ایک اور قدم اٹھایا ہے۔
پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت کی جانب سے اسکولوں میں بچوں کو سہولیات کی فراہمی اور تعلیمی ایمرجنسی کے دعووں کو عملی شکل دینے کے لیے ایک اور اہم قدم اٹھایا ہے اور ہلکا بستہ پروگرام متعارف کرا دیا ہے لیکن اُس پر عمل درآمد نہیں ہو سکا ہے۔
’ہلکا بستہ کامیابی کا رستہ‘ یعنی اب بچوں کے بستے کا وزن بچوں اور کلاس کے حساب سے رکھنا ہوگا۔ اس سلسلے میں دسمبر 2020 میں خیبرپختونخوا اسمبلی سے باقاعدہ ایکٹ منظور کیا جاچکا ہے اور حکومت کی جانب سے بھی اقدامات اٹھائے جارہے ہیں کہ اس قانون پر عملی شکل میں بھی عملدرآمد ہو۔ لیکن بدقسمتی سے 3 ماہ گزرنے کے باوجود بھی اسکولوں میں اس ایکٹ پر عمل ہوتا دکھائی نہیں دے رہا ہے۔
بچوں اور والدین کی یہ امید بھی ختم ہوتی جارہی ہے کہ اب بچوں پر تعلیم کے ساتھ ساتھ کتابوں کا بوجھ کم ہوجائے گا۔ اس ایکٹ کے تحت تمام تعلیمی ادراے پابند ہیں کہ وہ بچوں کے بستوں کا وزن ان کی کلاسز کے حساب سے رکھیں لیکن تاحال ایسا نہیں کیا جاسکا ہے۔
اگر بچوں اور والدین کے تحفظات سے ہٹ کر بھی دیکھا جائے تو یہ بھاری بستے بچوں کے روزانہ کے معمولات میں پریشانی کا باعث ہیں اور ان کی صحت پر بھی خراب اثرات مرتب کرتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
پشاور میں ’محمد علی سدپارہ کلائمبنگ وال‘ کا افتتاح
ماہرین کے مطابق ’بچوں کی ہڈیاں اس قابل نہیں ہوتیں کہ وہ مسلسل بھاری وزن برداشت کر سکیں۔ اس لیے بھاری بستے اٹھانے سے بچوں میں ہڈیوں کے مسائل پیدا ہوتے ہیں اور زیادہ وزن سے ان کی ریڑھ کی ہڈی پر بھی دباؤ بڑھتا ہے۔‘
دوسری جانب کچھ ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ ’بچوں پر اُن کے وزن سے زیادہ بوجھ ڈالنا انہیں جسمانی طور پر کمزور کرنے کے ساتھ دماغی لحاظ سے بھی متاثر کرتا ہے۔‘
ان حالات میں دیکھا جائے تو یہ حقیقت ہے کہ حکومت کی جانب سے تعلیمی میدان میں اصلاحات کا سلسلہ جاری ہے لیکن قوانین پر عمل کر کے ہی ان کے ثمرات بچوں کو پہنچائے جاسکتے ہیں۔
اسی موضوع پر وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کے معاون خصوصی برائے اطلاعات کامران بنگش نے نیوز 360 سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہلکا بستہ پر عملدرآمد میں سب سے زیادہ ضروری عوام کا تعاون ہے۔ نجی اسکولوں میں کئی حد تک اس پر عملدرآمد کیا جارہا ہے اور سرکاری اسکولوں میں عملدرآمد کروانے کی کوشش کر رہے ہیں۔