خیبرپختونخوا میں ون ویلنگ سے حادثات میں دو گنا اضافہ

ایک ماہ کے دوران 14 افراد ون ویلنگ کرتے ہوئے جاں بحق، جبکہ دو درجن سے زائد معذوری کا شکار ہوگئے

پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا میں گزشتہ 6 ماہ کے عرصے میں ون ویلنگ کے باعث حادثات میں گزشتہ برس کے مقابلے میں دو گنا اضافہ ہوا ہے۔ ٹریفک پولیس نے ون ویلنگ کے خلاف مہم مسلسل جاری رکھی ہوئی ہے اور درجنوں ون ویلرز کے خلاف کارروائی بھی کی ہے۔

پشاور سمیت صوبے کے دیگر اضلاع میں حکومت کی جانب سے واضح احکامات جاری کیے گیے ہیں کہ ون ویلرز سے کوئی رعایت نہ برتی جائے۔ ایسے تمام افراد کے خلاف سخت سے سخت کارروائی کی جائے۔

ایس ایس پی ٹریفک پشاور عباس مجید مروت کا کہنا ہے کہ ”پشاور سمیت پورے صوبے میں ٹریفک کے مسائل کافی زیادہ ہیں۔ بدقسمتی سے ون ویلنگ ایک ایسا جرم بن چکا ہے جو نوجوان بڑی خوشی سے کرتے ہیں۔ نوجوان چند لمحات کے لطف کی خاطر موت کے منہ میں پہنچ جاتے ہیں۔‘‘

انہوں نے کہا کہ ایک ماہ کے دوران ٹریفک قوانین کی خلا ف ورزی پر مختلف کیسز میں تین ہزار سے زائد چالان کیے گیے جن میں زیادہ تعداد موٹرسائیکل اور ون ویلنگ کے کیسز ہیں۔

کریک ڈاؤن

دوسری جانب اگر ایدھی اور ریسکیو 1122 کے اعداد و شمار کو دیکھا جائے تو اب تک جتنے بھی ایکسیڈنٹ کے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں، ان میں 60 فیصد سے زائد ون ویلنگ اور موٹرسائیکل سے گرنے کے واقعات کے ہیں۔

ون ویلنگ کی روک تھام کے لیے تمام اضلاع میں سٹی ٹریفک پولیس کی سربراہی میں کمیٹیاں بھی تشکیل دی گئی ہیں۔ یہ کمیٹیاں ون ویلرز کو گرفتار اور ون ویلنگ میں استعمال ہونے والی موٹرسائیکلیں ٹرمینل میں بند کردیتی ہے۔ گرفتار افراد کے خلاف جہاں قانونی کارروائی عمل میں لائی جاتی ہے وہیں بھاری جرمانے بھی عائد کیے جاتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

کرونا نے قابل نوجوان کو ابدی نیند سلادیا، اہلخانہ کے خواب چکناچور

موٹر سائیکل پر پیچھے تختہ لگا کر نوجوان جہاں خود کو محفوظ رکھنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں وہیں زمین پر ایک پہیے سے گھوم کر خود کو آسمانوں پر اڑتا محسوس کرتے ہیں۔ اس خطرناک اور جان لیوا عمل کو روکنے کے لیے عوام میں شعور اجاگر کرنے کیلئے ٹریفک آگاہی مہم کے ساتھ ساتھ والدین اور میڈیا کو بھی اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ ٹریفک کو رواں دواں رکھنے کے ساتھ ساتھ عوام کی جان کی حفاظت کیلئے بھی یہ بےحد ضروری ہے۔

موٹرسائیکل کی ون ویلنگ سے اب تک کئی قیمتی جانیں ضائع ہوچکی ہیں۔ پشاور کے تین بڑے اسپتالوں میں ایک ماہ کے دوران 14 افراد اس شوق کی خاطر زندگی کی بازی ہار گئے۔ جبکہ دو درجن سے زائد افراد مختلف معذوری کا شکار بھی ہوئے۔

متعلقہ تحاریر