گھریلو تشدد اور زیادتی کے واقعات، انسانی حقوق کہاں ہیں؟

انسانی حقوق کی تنظیمیں حکومت سے سخت قوانین بنانے کا مطالبہ کررہی ہیں۔

پاکستان میں زیادتی، گھریلو تشدد اور قتل کے واقعات میں اضافے کے بعد ملک میں کام کرنے والی انسانی حقوق کی تنظیمیں اور سول سوسائٹی نے حکومت سے اس حوالے سے سخت قانون بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔

پچھلے کچھ  دنوں سے پاکستان میں انسانی حقوق کی پامالی کی وارداتوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اسلام آباد میں نور مقدم اور حیدرآباد میں قرت العین کے بیہمانہ قتل اور کورنگی میں معصوم بچی سے زیادتی کے بعد لاش ملنے کے دل دہلا دینے والے واقعات پر ملک میں خوف کی فضا چھا گئی ہے۔ انسانیت سوز واقعات کے خلاف ملک بھر میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ مختلف مکتب فکر کے لوگوں کا کہنا ہے کہ اس معاشرے میں اب معصوم بچوں اور خواتین کے علاوہ جانور بھی غیر محفوظ ہیں، درندہ صفت انسانوں کو عبرت کا نشانہ بنانے کے لیے سخت قانون سازی کی ضرورت ہے۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے واقعات بڑھنے کے باوجود حکومت اور انسانی حقوق کی وزارت کہیں نظر نہیں آرہی ہے۔

دوسری جانب سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق نے نور مقدم اور قرت العین کے قتل کا نوٹس لیا۔ گزشتہ روز اس حوالے سے اجلاس بھی بلایا گیا جس میں انسانیت سوز واقعات کے اصل محرکات کا جائزہ لیا گیا۔

یہ بھی پڑھیے

خواتین کے تحفظ کے حوالے سے فنکار بھی پریشان

پچھلے دنوں حیدرآباد میں 4 بچوں کی ماں قرت العین کو اس کے شوہرعمر خالد میمن نے تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کردیا۔ عیدالاضحیٰ سے ایک روز قبل وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں نور مقدم کو اس کے دوست نے گلا کاٹ کر قتل کردیا تھا۔ اسی طرح 2 روز قبل کراچی کے علاقے کورنگی میں 6 سالہ معصوم بچی ماہم کو زیادتی کے بعد قتل کیا گیا۔

بچوں کے حقوق پر کام کرنے والی سماجی تنظیم ساحل کے مطابق پاکستان میں روزانہ 8 بچے جنسی زیادتی کا شکار ہورہے ہیں۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز کراچی ایئرپورٹ سے ایک معصوم بچے کو اغوا کرنے کی کوشش ناکام بنا دی گئی تھی۔ ایک مسافر بچے کو بیگ میں ڈال کر دبئی لے جانے کی کوشش کی جارہی تھی جسے ایئرپورٹ پولیس نے گرفتار کرلیا۔

متعلقہ تحاریر