محمد علی سدپارہ تیری یاد آئی تیرے لاپتا ہونے کے بعد

علی سدپارہ تو ایک تازہ مثال ہے ناجانے کتنے ایسے ہیروز ہیں جن کے کارناموں کو دنیا تو کیا پاکستان میں بھی کوئی نہیں جانتا۔

آخر کیا وجہ ہے کہ پاکستانی قوم کو اپنے ہیروز ہمیشہ جانے کے بعد ہی یاد آتے ہیں یا پھر اُس وقت جب وہ بستر سے لگ جاتے ہیں۔ محمد علی سدپارہ کی مثال بھی ایسی ہی ہے۔ کوہ پیما محمد علی سدپارہ کو کے ٹو کی چوٹی پر لاپتا ہوئے کئی روز گزر گئے ہیں۔ حکومت کوہ پیما اور ان کے ساتھیوں کی تلاش میں تاحال کامیاب نہیں ہوپائی ہے۔ 

پاکستان شوبز انڈسٹری کی کئی معروف شخصیات کوہ  پیمانی کے میدان میں کارنامے سرانجام دینے والے محمد علی سدپارہ کے حمایت میں اکٹھے ہو گئی ہیں۔ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ جب ایک ہیرو منظر سے غائب ہو جاتا ہے تو اس کو یاد کرنے کے لیے بڑی بڑی شخصیات سامنے آجاتی ہیں۔ علی سدپارہ تو ایک تازہ مثال ہیں ناجانے کتنے ایسے ہیروز ہیں جن کے کارناموں کو دنیا تو کیا پاکستان میں بھی کوئی نہیں جانتا۔

سم تھنگ ہاٹ کی چیف ایڈیٹر آمنہ حیدر عیسانی کو محمد علی سدپارہ کی یاد آئی تو انہوں نے اپنے ایک ٹوئٹ میں حکومت سے درخواست کرڈالی کہ وہ علی سدپارہ اور ان کی ٹیم ممبران کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے ان کی زندگی پر ایک خصوصی فلم بنائے تاکہ پاکستان کا ایک مثبت چہرہ دنیا کے سامنے لایا جاسکے۔

نجی ٹی وی چینل پر چلنے والے ڈرامے عہدے وفا سے شہرت پانے والی اداکارہ زارا نور عباس کا کہنا ہے کہ ہم پاکستانی اپنے ہیروز کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ہمیشہ دیر کیوں کردیتے ہیں اور ہمیشہ اپنے ہیروز کو یاد کیوں کرتے۔

زارا نور نے اپنے فلوورز سے اپیل کی کہ وہ یہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ علی سدپارہ جیسے اور بہت سے غیرمقبول ہیروز کے کارناموں کودنیا کے سامنے لائیں گے۔

یہ بھی پڑھیے

قوانین بنانے اور انصاف دلانے والے خود قانون شکن بن گئے

اداکارہ کا کہنا ہے ہمیں اپنے ہیروز کو ان کے جانے سےپہلے ان کے کارناموں کو خراج تحسین پیش کرنا چاہیے۔

اس کے علاوہ ، سٹی ایف ایم 89 کی آر جے ، انوشے اشرف نے بھی انسٹاگرام پر ایک لمبا پوسٹ لکھا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ موت کے بعد کسی کو شہرت کیوں ملتی ہے؟

انہوں نے تبصرہ کیا کہ کسی کو ہر چیز کو پیچھے چھوڑنے اور ملک کے لئے کچھ خاص کرنے کے لئے زندگی کو خطرے میں ڈالنے کے لئے بہت زیادہ کوششیں کرنا پڑتی ہیں۔

اس لیے یہ  ضروری ہے کہ علی سدپارہ جیسے بہت سے غیر مقبول ہیروز کی کاوشوں کو پہچانیں اور ان کے چلے جانے سے پہلے ان کو انعامات سے نوازا جائے۔

 

View this post on Instagram

 

A post shared by Anoushey Ashraf (@anousheyashraf)

علی سدپارہ کون ہیں؟

گلگت بلتستان کے دور دراز گاؤں سدپارہ میں محمد علی کی پیدائش 1976 میں ہوئی تھی۔ 11 بہن بھائیوں میں سے صرف علی سدپارہ اور ان کی بہن ہی زندہ بچی ہیں۔

علی ان مہمات کے ممبر بھی تھے جن میں نانگا پربت کے پہلے موسم سرما اور خزاں دوران نیپال میں پوموری کی چوٹی کو پہلی مرتبہ سردیوں میں سر کیا تھا۔

2018 میں علی سدپارہ اور ٹکسن نے ماؤنٹ ایوریسٹ کی چوٹی کو بغیر آکسیجن کے سرکرنے کی کوشش کی تھی مگر وہ اس میں کامیابی حاصل نہیں کر سکے تھے۔

متعلقہ تحاریر