قوانین بنانے اور انصاف دلانے والے خود قانون شکن بن گئے

قومی اسمبلی میں ہنگامہ آرائی کرنے والوں کو شوکاز نوٹس اور ہائی کورٹ میں توڑپھوڑ کرنے والوں کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کے احکامات جاری کیے گئے ہیں۔

قوانین بنانے والے سیاستدان اور اُن قوانین کی بنیاد پر انصاف دلانے والے وکلاء خود ہی قانون شکن بن گئے۔ گزشتہ ہفتے قومی اسمبلی میں حکومتی اور حزب اختلاف کے ارکان کی جانب سے طوفان بدتمیزی برپا کیا گیا وہیں پیر کے روز قانون کے رکھوالوں نے عدلیہ کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے اسلام آباد ہائیکورٹ میں توڑپھوڑ کی اور چیف جسٹس کے چیمبر کا گھیراؤ کیا۔

گزشتہ ہفتے جہاں قومی اسمبلی میں ہنگامہ آرائی کے مرتکب ہونے والے 3 ارکان پارلیمنٹ کو اسپیکر قومی اسمبلی نے شوکاز نوٹس جاری کردیا گیا وہیں قانون کے رکھوالوں نے پاکستان کے دوسرے معتبر ترین ادارے ‘عدلیہ’ پر حملہ کیا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ پر حملہ کرنے پر وکلاء کے خلاف ایف آئی آر درج کرلی گئی ہے۔

دنیا کے کسی بھی ملک میں وہاں کی پارلیمنٹ سب سے باعزت ادارہ سمجھا جاتا ہے جہاں آنے والے آئین اور قانون کی پاسداری کا حلف اٹھاتے ہیں اور قانون سازی کی جاتی ہے۔ ارکان پارلیمنٹ کے سیاسی کردار کی بنیاد پر دنیا کے سامنے ایک تاثر جاتا ہے کہ اس ملک کے ارکان پارلیمنٹ کس قدر اعلیٰ درجے اور ظرف کے مالک ہیں۔ مگر اسلامی جمہوریہ پاکستان کی قومی اسمبلی میں اختتام ہفتہ ہونے والی ہنگامہ آرائی اور ارکان پارلیمنٹ کا بچکانہ دوسری ہی کہانی بیان کر رہا ہے۔ ممبران قومی اسمبلی ایک دوسرے کی شکایات کرتے دکھائی دیئے اور ایک دوسرے کو مختلف اقسام کے نازیبا اشارے کیے گئے اور چپلیں جوتے دکھائے گئے۔

ارکان پارلیمنٹ ایک دوسرے کے دست وگریباں ہوئے اور گالم گلوچ کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ جاری رہا۔ ارکان نے اسپیکر قومی اسمبلی کے ڈائس کا گھیراؤ بھی کیا گیا۔

اس طرح کا ایک اور واقعہ گزشتہ روز ہی وکلاء کی جانب سے دیکھنے میں آیا جنہوں نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں توڑ پھوڑ کی اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کے چیمبر کا گھیراؤ کیا۔ چیف جسٹس کے چیمبر میں ہلڑ بازی کی انتہا کے بعد رینجرز کو طلب کرنا پڑا۔

جب عدلیہ کی بحالی کی تحریک چل رہی تھی تو ناقدین کا کہنا تھا کہ وکلاء کو بہت زیادہ طاقتور بنایا جا رہا ہے جو کہ مستقبل میں خطرناک ثابت ہوگا۔ اس پیش گوئی یا تجزیے کو حقیقت میں پیر کے روز دیکھ لیا گیا ہے۔ ماضی میں وکیل رہنما اطہر من اللہ کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے والے وکلاء موجودہ چیف جسٹس اطہر من اللہ کے سامنے کھڑے ہوکر ان کے خلاف نعرے بازی کررہے تھے۔

کہتے ہیں کہ ہر چیز میں زیادتی بُری ہوتی ہے۔ کچھ اسی طرح کا طرزعمل ہم نے قومی اسمبلی (آئین اور قانون کے پاسداری ادارے) کے ارکان نے اور سڑکوں پر قانون پر عملدرآمد کرانے والے وکلاء کی جانب سے دیکھنے میں آیا۔ قوانین بنانے والے اور قوانین رکھوالے اگر خود ہی قانون شکنی کریں گے تو کیا ہم وہ مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں جن کے لیے یہ مقدس ادارے بنائے گئے تھے؟ قانون بنانے والے ہی اس ادارے میں ہنگامہ آرائی کریں گے جہاں قانون سازی کی جاتی ہے تو ہم دنیا کو کیا پیغام دیں گے؟

قومی اسمبلی کے اجلاس میں ہنگامہ آرائی پر اسپیکر نے حکومتی جماعت کے ایک رکن سمیت اور اپوزیشن کے دو ارکان اسمبلی کو لیٹر جاری کردیا جن میں پاکستان پیپلز پارٹی کے سید نوید قمر، پاکستان مسلم لیگ (ن) کے چوہدری حامد حمید اور پاکستان تحریک انصاف کے عطااللہ خان شامل ہیں۔

دوسری جانب ترجمان اسلام آباد ہائیکورٹ کے مطابق چیف جسٹس بلاک پر حملہ کرنے اور توڑ پھوڑ کرنے والے 21 وکلاء پر مقدمہ درج  کرلیا گیا ہے اور پولیس نے مقدمے میں نامزد وکلاء کی تلاش میں چھاپے مارنے شروع کردیئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

قومی اسمبلی کا اجلاس رواں ماہ بلانا حکومت کا امتحان

مقدمے میں تصدق حنیف، شہلا شان عباسی، حماد، عمر خیام، احسن مجید گجر، خالد محمود، شائستہ تبسم، یاسر خان، ناہید، اشفین، راجہ فخر، نصیر کیانی، ارباب ایوب گجر، اسد اللہ، راجہ زاہد، لیاقت منظور، نوید ملک، خالد تاج، شعیب چوہدری، معراج ترین اور ظفر کھوکھر کو نامزد کیا گیا ہے۔

ان وکلاء کے خلاف الگ سے توہین عدالت کی کارروائی شروع کی جا رہی ہے۔ مزید برآں واقعے میں ملوث وکلاء کے  لائسنس کی معطلی کے لیے اسلام آباد بار کونسل کو ریفرنس ارسال کیا جا رہا ہے۔

متعلقہ تحاریر