دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے دعوے دار بھارت کی ساکھ تار تار ہوگئی

برطانوی روزنامہ "دی گارڈین" نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ گجرات فسادات  سے متعلق بی بی سی کی دستاویزی فلم پر پابندی لگنے سے دنیا بھر میں بھارت کی ساکھ تار تار ہوگئی  ہے،انٹرنیٹ فریڈم فاؤنڈیشن کے پالیسی ڈائریکٹر نے کہاکہ سنسر شپ کے لیے ہنگامی قانون کا یہ استعمال ایک  تشویشناک پیشرفت ہے

بھارتی حکومت کی جانب سے گجرات فسادات کے پس منظر پر بنائی گئی بی بی سی کی دستاویزی فلم پر پابندی لگانے کر دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے دعوے دار بھارت کی ساکھ تار تار ہوگئی ۔

برطانوی روزنامہ "دی گارڈین” نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ گجرات فسادات سے متعلق بی بی سی کی دستاویزی فلم پر پابندی  لگنے سے دنیا بھر میں بھارت کی ساکھ تار تار ہوگئی  ہے۔

یہ بھی پڑھیے

بھارتی انتہا پسند وزیر داخلہ امیت شاہ کی گجرات میں مسلم نسل کشی کا کھلم کھلا اعتراف

اخباری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بی بی سی کی نریندر مودی پر بنائی گئی دستاویزی فلم پر ہندوستانی پابندی نے ایلون مسک کے آزادانہ تقریر کے دعوے کو بھی امتحان میں ڈال دیا ہے ۔

برطانوی روزنامہ نے کہا کہ مودی سرکار نے دو سال قبل منظور کیے گئے ایمرجنسی قوانین کو پابندی کے نفاذ کے لیے استعمال کیا جس پر ٹویٹر اور یوٹیوب دونوں نے فوری  عمل در آمد کیا ہے ۔

بھارتی حکومت کے احکامات پر ٹوئٹر اور یوٹیوب نے مودی مخالف  فلم کو ہٹانا شروع کردیا ہے جس میں سیاسی رہنماؤں ،فلمی اداکاروں  اور سماجی رہنماؤں کے کے اکاؤنٹس شامل ہیں ۔

سوشل میڈیا پر بی بی سی کی دستاویزی فلم کے کلپس بڑے پیمانے پر شیئر کیے جارہے ہیں جس میں الزام لگایا گیا ہے کہ مودی نے گجرات فسادات کو روکنے کے لیے فعال کردار ادا نہیں کیا ۔

یہ بھی پڑھیے

برطانوی وزیراعظم رشی سونک مسلمانوں پرمودی کے مظالم کا دفاع  کرنے لگے

ہندوستان میں انٹرنیٹ فریڈم فاؤنڈیشن کے ایڈووکیسی گروپ کے پالیسی ڈائریکٹر پرتیک واگھرے نے کہاکہ سنسر شپ کیلئے ہنگامی قانون کا یہ استعمال ایک  تشویشناک پیشرفت ہے۔

پرتیک واگھرے نے بتایا کہ آئی ٹی قوانین کی منظوری کے بعد سے حکومت کی درخواست پر 94 یوٹیوب چینلز، 19 سوشل میڈیا اکاؤنٹس اور 747 یو آر ایل کے خلاف کارروائی کی گئی۔

متعلقہ تحاریر