سندھ میں دوران زچگی سالانہ 3 ہزار خواتین اور60 فیصد بچے مرجاتے ہیں
کراچی میں منعقد ایک ورکشاپ میں بتایا گیا کہ سندھ میں صحت کی ناکافی سہولیات کی وجہ سے دوران زچگی سالانہ 3 ہزار مائیں اور60 فیصد بچے جان کی بازی ہار جاتے ہیں، ماہرین نے کہا کہ مانع حمل دواؤں سے ان میں کمی لائی جا سکتی ہے
وفاقی وزارت برائے منصوبہ بندی، ترقی اور اقوام متحدہ کے پاپولیشن فنڈ کے ایک سروے میں کہا گیا ہے کہ سندھ میں سالانہ 3 ہزار مائیں زچگی کے دوران زندگی کی بازی ہار جاتی ہیں۔
کراچی میں وزارت منصوبہ بندی و ترقی اور اقوام متحدہ کے پاپولیشن فنڈ کے تعاون سے رضاکارانہ قومی سروے اور آبادی سے متعلق بین الاقوامی مشاورتی ورکشاپ کا انعقاد کیا گیا ۔
یہ بھی پڑھیے
حکومت نے کمپنیوں کے مطالبے پر ادویات 20 فیصد مہنگی کردیں
ورکشاپ میں بتایا گیا کہ سندھ میں سالانہ 3 ہزار مائیں اور 60 فیصد بچے صحت کی ناکافی سہولیات کی وجہ انتقال کرجاتے ہیں جبکہ 5 سال سے کم عمر کے 50 فیصد بچے اسٹنٹ کا شکار ہیں۔
ورکشاپ میں کہا گیا کہ صوبے میں2.41 فیصد کی اوسط سالانہ شرح نمو کے ساتھ، کل آبادی 56.3 ملین (2022) ہے جس کا 2050 تک بڑھ کر 95.7 ملین تک پہنچنے کا تخمینہ ہے۔
مشاورتی اجلاس کے شرکاء نے خواتین اور نوجوانوں کو بااختیار بنانے، تولیدی صحت اور تولیدی حقوق، آبادی اور پائیدار ترقی کو آگے بڑھنے کے طریقوں پر تبادلہ خیال کیا گیا ۔
ورکشاپ میں بتایا گیا کہ سندھ میں خوراک اور صحت کی ناکافی سہولیات کی وجہ سے 60 فیصد شیر خوار بچے ایک سال کی عمر تک پہنچنے سے قبل ہی موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں ۔
یہ بھی پڑھیے
کرونا 2 کروڑ زندگیاں نگلنے کےبعد عالمی ہنگامی حالت کا باعث نہیں رہا، ڈبلیو ایچ او
ماہرین کے مطابق صحت کی ناکافی سہولیات کی وجہ سے سالانہ 3 ہزار مائیں مر جاتی ہیں مگر مانع حمل ادویات کا استعمال 49 فیصد تک بڑھا کر اموات میں 33 فیصد کمی لائی جا سکتی ہے ۔
ماہرین صحت نے کہا کہ خاندانی منصوبہ بندی کے پروگرامز کو کامیاب بنانے کیلئے مضبوط قومی عزم اور اس کیلئے مختص فنڈز میں اضافہ کرنے کی شدت سے ضرورت ہے ۔
سندھ حکومت نے آئی سی پی ڈی پروگرام آف ایکشن کو ترجیح دینے کے اپنے عزم کا اعادہ کیا، اسے پائیدار ترقی اور آبادی کے انتظام کے لیے ایک اہم فریم ورک کے طور پر تسلیم کیا۔