یونان کشتی حادثے میں پاکستانیوں کی زیادہ اموات کیوں ہوئیں؟ گارڈین اخبار کے ہوشربا انکشافات

گارڈین اخبار کی تحقیقی رپورٹ کے مطابق "حادثے کی شکار کشتی میں  کسی بچے یا خاتون کے زندہ بچ جانے کی  تصدیق نہیں ہوئی۔ مقامی میڈیا نے اطلاع دی ہے کہ کم از کم 298 پاکستانی ہلاک ہوئے، جن میں سے 135 کشمیر کے پاکستانی حصے سے تھے۔

یورپ میں  بہتر زندگی کی تلاش میں خطرناک اور غیرقانونی راستوں کے انتخاب نے ایک مرتبہ پھر ایک بڑے حادثے کو جنم دے دیا ہے ، لیبیا سے اٹلی کے لیے جانے والی کشتی بحیرہ عرب کے گہرے پانیوں میں ڈوب گئی ، کشتی میں 700 سے زائد مسافر سوار تھے ، جن میں صرف 104 افراد زندہ بچے ہیں ، کشتی کے سب سے نیچے والے ڈیک میں پاکستانی خواتین ، بچوں اور مردوں کو رکھا گیا تھا جہاں پر ہوا کا گزر بھی آسانی سے نہیں ہوتا، جبکہ ٹاپ فلور پر عراقی ، لیبیائی اور مصری تارکین وطن کو رکھا گیا ، یعنی پاکستانیوں کو جانوروں سے بدتر طریقے سے ٹریٹ کیا گیا۔

بین الاقوامی جریدے گارڈین کی اب تک کی رپورٹ کے مطابق 98 پاکستانیوں سمیت 600 سے زائد افراد کی ہلاکت کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے، جبکہ عینی شاہدین کے مطابق کشتی میں 310 پاکستانی سوار تھے جن میں خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد شامل تھے۔

گارڈین اخبار کی تحقیقی رپورٹ کے مطابق پاکستانیوں کو زبردستی کشتی کے نچلے ڈیک میں رکھا ، جہاں نہ ٹوائلٹ کا مناسب  بندوبست تھا اور نہ ہی پینے کے پانی کی  سہولت دستیاب تھی۔

یہ بھی پڑھیے

سعودی عرب،ایران، ترکی سمیت20ممالک  برکس میں شمولیت کے خواہاں

بنگلا دیشی نژاد نصرت جہاں چوہدری امریکا کی پہلی مسلمان خاتون فیڈرل جج تعینات

گارڈین اخبار کی تحقیقی رپورٹ کے مطابق کشتی حادثے سے قبل ہی 6 پاکستانی دم توڑ چکے تھے۔ یونانی کوسٹ گارڈز اپنے منفی کردار پر پردہ ڈالنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ یونانی حکام نے ریسکیو آپریشن بند کردیا ، ڈوبنے والے تمام افراد کو مردہ قرار دے دیا گیا۔

برطانوی اخبار کا کہنا ہے کہ کشتی میں سوار تارکین وطن کے حوالے سے بڑے ہی تکلیف دہ انکشافات سامنے آرہے ہیں۔ خواتین اور بچوں کو زبردستی کشتی کے نچلے حصے میں سفر کرنے پر مجبور کیا گیا۔ کشتی کی انتظامیہ نے نسلی تعصب کو ہوا دی ، پاکستانیوں کو کشتی کے نچلے حصے میں رکھا گیا جبکہ عراقی ، لیبیائی اور مصری تارکین کو ٹاپ فلور پر رکھا گیا۔ کشتی میں تقریباً 100 بچے بھی سوار تھے۔

گارڈین اخبار کی تحقیقی رپورٹ کے مطابق "شہادتوں سے پتہ چلتا ہے کہ خواتین اور بچوں کو ہولڈ میں مؤثر طریقے سے "بند” کر دیا گیا تھا، بظاہر بھیڑ سے بھرے جہاز پر مردوں کو قدرے محفوظ طریقے سے رکھا گیا تھا۔ پاکستانی خواتین اور بچے پانی کی تلاش میں ادھر جاتے تو عملے کے ارکان نے ان کے ساتھ بدسلوکی کرتے تھے۔

گارڈین اخبار کی تحقیقی رپورٹ کے مطابق "حادثے کی شکار کشتی میں  کسی بچے یا خاتون کے زندہ بچ جانے کی  تصدیق نہیں ہوئی۔ مقامی میڈیا نے اطلاع دی ہے کہ کم از کم 298 پاکستانی ہلاک ہوئے، جن میں سے 135 کشمیر کے پاکستانی حصے سے تھے۔

گارڈین اخبار کے مطابق "ایک مراکشی-اطالوی سماجی کارکن اور ایکٹوسٹ نوال سوفی نے بتایا کہ کشتی میں سوار تارکین وطن مدد کے لیے التجا کررہے تھے۔ ان کا کہنا تھا میں گواہی دیتی ہوں کہ کشتی کے عملے نے مدد کے لیے یونانی کوسٹ گارڈ سے رابطہ بھی کیا تھا۔ تاہم کوسٹ گارڈز اس بات سے انکاری ہیں کہ انہیں مدد کے لیے کوئی کال موصول نہیں ہوئی۔

گارڈین اخبار کی خبر کے مطابق "ڈوبنے والی کشتی کا انجن ڈوبنے سے کچھ دن پہلے فیل ہو گیا تھا، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ عملے نے مدد کے لیے ضرور پکارا ہو گا۔”

بچ جانے والے  ایک مسافر نے گارڈین اخبار کے نمائندے کو بتایا کہ "ہم نے جمعہ کی صبح فجر کے وقت سفر شروع کیا تھا۔ مجھ سمیت تقریباً 700 افراد جہاز میں سوار تھے، "ہم تین دن تک سفر کرتے رہے اور پھر انجن فیل ہو گیا۔”

متعلقہ تحاریر