آرمی ایکٹ کے سیکشن ڈی ٹو کے تحت عام شہریوں پر فوجی عدالتوں میں مقدمہ نہیں چلایا جا سکتا، سپریم کورٹ

چھ رکنی بینچ نے فوجی عدالتوں کے خلاف درخواستوں کی دوبارہ سماعت شروع کی ، بینچ تیسری بار تشکیل دیا گیا۔

سپریم کورٹ کے چھ رکنی بینچ نے فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ٹرائل کے خلاف درخواستوں کی سماعت شروع کی ، تاہم سماعت کے آغاز پر ہی کارروائی روک دی گئی کیونکہ بینچ ایک مرتبہ تحلیل ہو گیا تھا۔

بینچ کی تیسری مرتبہ تشکیل کے بعد چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں چھ رکنی بینچ نے سماعت کی۔ بینچ کے دیگر ممبران میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

ڈاکٹر یاسمین راشد کی بعداز گرفتاری درخواست ضمانت عدم پیروی پر مسترد کردی گئی

غداری کیس: عدالت کا ایف آئی اے کو شہباز گل کا شناختی کارڈ بلاک کرنے کا حکم

دوبارہ سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے پی ٹی آئی چیئرمین کے وکیل حامد خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یہاں دلائل کے بجائے ہتھکنڈے استعمال کیے جا رہے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ "آپ نے درخواست میں مختلف درخواستیں بھی شامل ہیں۔”

ایک اور درخواست گزار کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ان کے موکل کا کیس فوجی عدالتوں سے متعلق ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ٹرائل صرف آرٹیکل 175 کے تحت کیے جاسکتے ہیں ، جو ایک مقرر جج کر سکتا ہے۔

سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ جب ایف پی ایل ای کیس کا فیصلہ ہوا تو اختیارات کی علیحدگی کا اصول واضح نہیں تھا۔ جس پر جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ اس کیس کا اس کیس سے کیا تعلق ہے؟

وکیل سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ ایف پی ایل ای کیس ریٹائرڈ فوجی افسران سے متعلق تھا۔

جسٹس منیب اختر نے سلمان اکرم راجہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کیا وہ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ فوجی عدالت میں فوجی افسران کا ہی ٹرائل ہوسکتا ہے عام شہریوں کا نہیں۔

وکیل سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ اگر ٹرائل کسی شخص کے آئینی حقوق پر اثر انداز نہیں ہوتا تو اسے خصوصی عدالت میں چلایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اے ٹی سی یا بینکنگ کورٹ میں حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہوتی۔

چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ سلمان اکرم راجہ سے سوال کیا کہ کیا فوجی عدالتوں میں ابھی تک کسی سویلین کو ٹرائل شروع ہوا ہے۔ جس پر سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ فوجی عدالت میں ابھی تک کسی کا ٹرائل شروع نہیں ہوا۔

جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ کیا فوجی عدالتوں میں شہریوں کے ٹرائل پر اعتراض آرٹیکل 175(3) کی حد تک محدود ہے؟

جسٹس عائشہ ملک نےریمارکس دیئے کہ ایف پی ایل ای کیس فوج کے ساتھ ریٹائرڈ فوجیوں کے اندرونی معاملے سے متعلق تھا۔

جسٹس عائشہ ملک نے سلمان اکرم راجہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ دلائل سے ثابت کریں کہ عام شہریوں پر فوجی عدالتوں میں مقدمہ نہیں چلایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ آپ نے کس بنیاد پر قانون کی شقوں کو چیلنج کیا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ فوجی عدالتوں سے متعلق کئی فیصلے ہیں، پوچھا کہ کیا فوجی عدالتوں میں فوجیوں کے ٹرائل پر بھی بحث کرنا چاہتے ہیں؟

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ "ہم بہت سادہ لوگ ہیں۔ وہ دلائل دیں جیسے آپ ہارورڈ یونیورسٹی میں دلائل دے رہے ہیں۔‘‘

سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ وہ صرف فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ٹرائل کی حد تک بحث کر رہے ہیں۔

اس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا کسی شہری کو بنیادی حقوق سے محروم رکھا جا سکتا ہے؟ وکیل نے کہا کہ محض الزام کی بنیاد پر کسی کو فیئر ٹرائل کے حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔

وکیل نے مزید کہا کہ عام شہری دو طرح کے ہوتے ہیں ایک وہ جو مسلح افواج کو خدمات پیش کرتے ہیں اور فوجی نظم و ضبط کے پابند ہوتے ہیں، اور جن کا فوج سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔

دوسری قسم کے شہریوں کا ٹرائل آرٹیکل 175(3) کے تحت صرف ایک مقرر جج ہی کر سکتا ہے۔

جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ ہم فوجی عدالتوں کو کیسے کہہ سکتے ہیں کہ وہ عدالتیں نہیں ہیں؟

چیف جسٹس بندیال نے پوچھا کہ کیا فوجی عدالتوں کے فیصلوں کو کہیں بھی چیلنج کیا جا سکتا ہے؟ ایڈووکیٹ سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ انہیں آرمی چیف یا ان کی بنائی ہوئی کمیٹی کے سامنے چیلنج کیا جا سکتا ہے۔

متعلقہ تحاریر