کوئٹہ کو سردیوں میں گیس ایسے چاہیے جیسے زندہ رہنے کے لیے کھانا

سوئی سدرن گیس کا کہنا ہے کہ اس وقت گیس کی مجموعی پیداوار کا 70 فیصد حصہ سندھ، 15 فیصد بلوچستان اور باقی دیگر صوبوں سے حاصل کیا جاتا ہے۔

موسم سرما کی آمد کے ساتھ ہی ملک کو 1952ء سے گیس مہیا کرنے والے صوبہ بلوچستان اور خاص طور پر اس کے دارالحکومت کوئٹہ میں گیس کمپنی اور صارفین کے درمیان شکایات پر مبنی سرد جنگ کا آغاز ہوجاتا ہے۔ موسم کی سختیاں بڑھتی ہیں تو یہ تعلق مزید تلخ اور احتجاجی انداز اختیار کرلیتا ہے۔

کوئٹہ بلوچستان کا واحد اربن سینٹر ہے لیکن ہر سال یہاں سردیاں آتے ہی گیس لوڈشیڈنگ، گیس کے پریشر میں کمی، زائد بل، کنکشن منقطع ہونے اور گیس لیکیج کی شکایت موصول ہونا شروع ہوجاتی ہیں۔

دوسری جانب ملک کو قدرتی گیس فراہم کرنے والی سوئی سدرن گیس کمپنی (ایس ایس جی سی) کو صارفین سے میٹر ٹیمپرنگ کے ذریعے گیس چوری کی شکایت رہتی ہے۔ اس دیرینہ جھگڑے کو جانچنے کے لیے نیوز360 کی ٹیم نے فریقین سے بات چیت کی اور ایک تحقیقاتی رپورٹ مرتب کی ہے۔

درجہ چہارم کے ملازم عبدالنبی کی رہائش گاہ کوئٹہ کے سریاب روڈ پر ہے۔ کرائے کے مکان میں پچھلے سال منتقل ہونے کے ڈیڑھ ماہ بعد ہی ایک دن ڈیوٹی سے گھر واپسی پر گیس کنکشن منقطع تھا۔ گھر کی دیوار پر نظر پڑی تو وہاں گیس میٹر ہی غائب تھا۔

عبدالنبی کے مطابق گیس کمپنی کےافسران نے میٹرٹیمپرنگ کا الزام لگا دیا۔ 70 ہزار جرمانہ ادا کرنے پر گیس میٹر واپس دینے کی شرط رکھی گئی۔ عبدالنبی نہ تو یہ بھاری جرمانہ ادا کرسکے نہ ہی اب تک دوسرا مکان کرائے پر لے سکے۔ لہٰذا اب تک لکڑیاں جلا کر گزارہ کررہے ہیں۔

بشریٰ شوکت سول سیکریٹریٹ میں کام کرتی ہیں۔ کوئٹہ کے علاقے نواں کلی میں اپنے شوہر، تین بچوں اور ساس کے ساتھ رہتی ہیں۔ بشریٰ کے مطابق یہاں سردیوں کا موسم سب سے بڑا امتحان ہے۔ چولہا، ہیٹر اور گیزر سب کی اشد ضرورت پڑتی ہے لیکن سخت سردی میں صبح ناشتہ بنانے اٹھیں تو چولہا کسی موم بتی سے بھی کم جل رہا ہوتا ہے۔

بشریٰ کہتی ہیں کہ ”لوڈشیڈنگ کے بعد گیس بحال ہونے پر اگر آپ گھر پر موجود نہیں تو پڑوسی کمپریسر لگا کر آپ کے حصے کی گیس لے جاتے ہیں‘‘۔

اب بات کریں سریاب کی تو یہ ایک ایسا علاقہ ہے جہاں سالہا سال گیس کی عدم فراہمی اور پریشر میں کمی کے خلاف شدید عوامی احتجاج ہوتے رہتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

آمنہ کی آمنہ پر باڈی شیمنگ

احمد نواز بلوچ بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) اسی حلقے سے منتخب بلوچستان اسمبلی کے رکن ہیں۔ ایم پی اے احمد نواز کے مطابق ”کوئٹہ میں رہنے والے ہر گھر کو سردیوں میں گیس اس طرح چاہیے جیسے زندہ رہنے کے لیے کھانا اور پانی۔‘‘

اُن کے مطابق اگر شدید سردی اور برف باری میں کسی کے پاس گیس نہ ہو تو شہریوں اور علاقہ مکینوں کے لیے سڑکوں پر احتجاج کرنے کے سوا کوئی راستہ باقی نہیں رہتا۔

احمد نواز کا کہنا ہے کہ بلوچستان اسمبلی کی جانب سے متعدد مرتبہ سردیوں کے چار ماہ رعایتی نرخ اور استعمال کی حد مقررکرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ لیکن گیس کمپنی اور وفاقی حکومت نے آج تک اس اہم مسئلے کے بارے میں سنجیدگی سے نہیں سوچا۔

احمد نواز بلوچ نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ملک آدھی صدی سے زائد عرصہ تک بلوچستان کی گیس استعمال کر کے ترقی کرتا رہا لیکن اسی گیس سے صوبہ کے عوام کو کوئی ریلیف نہیں ملا۔ عوام پر گیس چوری کے الزام سے متعلق احمد نواز کہتے ہیں کہ چوری محکموں کے اندر موجود لوگوں کی معاونت کے بغیر ممکن نہیں۔

انگریزی روزنامہ کو کوئٹہ سے رپورٹ کرنے والے صحافی اکبر نوتیزئی کے مطابق بلوچستان میں گیس کا مسئلہ صرف کمپنی اور صارفین کی درمیان خدمات اور ادائیگیوں کے جھگڑے کا مسئلہ ہی نہیں بلکہ ایک سیاسی تناظراور سوچ کا معاملہ بھی ہے۔

اکبر نوتیزئی کے مطابق ایک بڑی اکثریت آپ کو یہ کہتے ہوئے ملے گی کہ "بلوچستان کی قدرتی وسائل بشمول گیس لوٹ لئے گئے ہیں اور ان وسائل پر یہاں کے عوام اور حکومت کا کوئی اختیار نہیں۔” اکبر کہتے ہیں کہ اس سوچ کی موجودگی نے گیس کمپنی کی کارکردگی کو بری طرح متاثر کیا ہے۔

صوبہ کے مخصوص سیاسی حالات کے باعث ایک مخصوص مراعت یافتہ طبقہ بھی بن چکا ہے۔ جو گیس سمیت تمام سرکاری اور نجی نعمتوں کے با آسانی مزے لوٹتا رہتا ہے۔ عوام کم پریشر، لوڈ شیڈنگ اور چوری شدہ گیس کے خمیازے میں جاری اوور بلنگ جیسے مسائل کا شکار ہوتے رہتے ہیں۔

جنرل مینیجر ایس ایس جی سی ایل بلوچستان مدنی صدیقی سے نیوز 360 کی ٹیم نےخصوصی بات چیت کی۔

مدنی صدیقی کے مطابق ملک میں اس وقت گیس کی مجموعی پیداوار کا 70 فیصد حصہ سندھ، 15 فیصد بلوچستان اور باقی دیگر صوبوں سے حاصل کیا جاتا ہے۔ بلوچستان کے قدیم ترین گیس ذخائر اور فیلڈ میں اب کسی بھی نئی دریافت اور پیداوار کا اضافہ نہیں ہورہا۔ بلوچستان کو چند سالوں پہلے تک 1300 کیوبک فٹ گیس ملاکرتی تھی۔ رواں سال یہ فراہمی کم ہو کر 1050 کیوبک فٹ ہوگئی۔

مدنی صدیقی کا کہنا ہے کہ کوئٹہ میں رہائشی اورکاروباری مراکز بڑھنے سے کمپنی کو سالانہ 2 سے 4ہزار نئے کنکشن کی ڈمانڈ آرہی ہے۔ لیکن پرانے انفرااسٹرکچراور چھوٹی پائپ لائنز کے باعث سردیوں میں پریشر کو برقرار رکھتے ہوئے گیس کی فراہمی انتہائی مشکل ہوجاتی ہے۔

مدنی صدیقی کے مطابق کوئٹہ میں اس وقت 2 لاکھ میٹرز ہیں جن میں ایک لاکھ 60ہزار کی ریڈنگ انتہائی کم یا بلکل نہ ہونے کے برابر ہے، صرف 40 ہزار میٹرز سے ریڈنگ اور ادائیگی آتی ہے۔

مدنی صدیقی نے بلوچستان میں تیز چلنے والے اور ناکارہ میٹرز کی نفی کرتے ہوئے کہا کہ سوئی سدرن گیس کمپنی کے علاوہ کوئی اورکمپنی ملک میں میٹرز نہیں بناتی ۔ گیس ریٹ اوگرا کی جانب سے تبدیل کیے جاتے ہیں۔ سوئی سدرن کا کام صرف گیس کی ترسیل کرنا ہے ۔

مدنی صدیقی کا کہنا ہے کہ موسم سرما میں گیس کی فراہمی اور پریشر برقرار رکھنا کمپنی کے لیے ایک بڑا چیلنج ہوتا ہے۔ لیکن ساتھ ہی گیس لیکیج اور کمپریسر پھٹنے جیسے حادثات سے عوام کو آگاہ رکھنا بھی ایک اہم کام ہے۔

بلوچستان میں گیس بحران اور اس کے گرد ابھرتے تنازعات کی ایک لمبی تاریخ ہے۔ دونوں فریقین کی اپنی کہانی اوراپنا درد ہے لیکن یہ معاملہ بنیادی طور پر ملک میں توانائی کے بحران کا ایک جز ہے، جس کی صدائیں ملک کے ہر کونے سے سنائی دے رہی ہیں۔

 

متعلقہ تحاریر