طلاق۔۔ طلاق۔۔ طلاق۔۔
میں تمہیں طلاق دیتا ہوں۔۔۔ یہ جملہ اپنے معنی کے اعتبار سے جتنی اہمیت رکھتا ہے ، پاکستانی ڈراموں میں اس کا استعمال اتنا ہی عام ہے
پاکستان میں ٹی وی ڈرامے ابتداء میں جس مہارت سے بنائے جاتے تھے آج کل وہ مہارت دستیاب نہیں۔ یہ کہا جائے کہ حالیہ دور میں ٹی وی ڈرامے زوال کی جانب گامزن ہے تو غلط نہ ہوگا۔
گذشتہ دور میں فیملی ڈرامے بنا کرتے تھے۔ عوام خود کو حقیقت سے قریب تر کرداروں میں تلاش کیا کرتے تھے۔ 80 کی دہائی میں جب پاکستانی ڈرامے نشر ہوا کرتے تھے تو سڑکوں پر سناٹا ہوتا تھا۔ "تنہائیاں”، "ان کہی”، "دھوپ کنارے” وہ ڈرامے ہیں جن کی آج تک انڈیا میں نقل کی جاتی ہے۔
ماضی کے ڈراموں میں رشتوں کے تقدس کو جس قدر اہمیت دی جاتی تھی آج اسی قدر پامال کیا جاتا ہے۔ ڈراموں کے موضوع اب صرف طلاق، سالی اور بہنوئی کے درمیان رشتہ، سسر کی بہو پر بری نظر یا دوست کی بیوی کے ساتھ دوسری شادی ہی رہ گئے ہیں۔
بیشتر حالیہ ڈراموں میں عورت کے کردار کو مضبوط نہیں بلکہ کمزور دکھایا جاتا ہے۔ تھپڑوں کا سلسلہ بھی عام ہے۔ جس کے بعد بات فوراً طلاق تک پہنچ جاتی ہے۔
میں تمہیں طلاق دیتا ہوں۔۔۔ یہ جملہ ہمارے ڈراموں میں اس قدرآسانی سے کہا جاتا ہے جیسے کوئی اہم بات ہی نہ رہی ہو۔
یہ بھی پڑھیے
اقراء عزیز انڈین اداکار پنکج تریپاٹھی کی مداح
پاکستانی ٹی وی چینل پر حال ہی میں نشر ہونے والے ڈرامے "نند” میں بہن خودکشی کی دھمکی دیتے ہوئے بھائی کو مجبور کرتی ہے کہ وہ اپنی بیوی کو طلاق دے اور بھائی فوراً طلاق دے دیتا ہے۔
اب کیا آپ اور میں عام طور پر اس صورتحال کو حقیقیت کے روپ میں دیکھ سکتے ہیں؟ نہیں تو پھر ایسی صورتحال ڈراموں میں کیوں دکھائی جاتی ہے؟
اسی طرح ڈرامہ "جلن ” میں لڑکی اپنی بہن کی شان و شوکت سے متاثر ہو کر اپنے منگیتر سے رشتہ توڑ دیتی ہے۔ بعد میں اپنے ہی بہنوئی سے شادی کرلیتی ہے۔
اس قسم کے موضوعات کہیں نہ کہیں ہمارے معاشرتی اقدار کو بلواسطہ یا بلاواسطہ نقصان پہنچا رہے ہیں۔
اس بات کا بالکل یہ مطلب نہیں کہ ہمارے تخلیق کاروں میں صلاحیت کا فقدان ہے۔ کچھ عرصہ قبل ایسے ڈرامے بھی بنے جنہوں نے ماضی کی یاد تازہ کی۔ "زندگی گلزار ہے” ان ڈراموں میں سرفہرست ہے جسے بےحد پذیرائی حاصل ہوئی۔
بات صرف اتنی ہے کہ جو بھی ڈرامہ ٹی وی پر نشر کیا جاتا ہے کہ اس کے اثرات سوشل میڈیا پر ضرور دکھائی دیتے ہیں۔ ڈراموں کو مختلف سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر موضوع بحث لایا جاتا ہے۔ اس ملک میں بہت سے ایسے لوگ بھی ہیں جن پر ان ڈراموں کا براہ راست منفی اثر ہوتا ہے۔
عام تاثر ہے کہ ٹی وی پر جو ڈرامے دکھائے جاتے ہیں اُن کے موضوعات عام لوگوں کی دلچسپی اور زندگی کے معاملات کو مد نظر رکھ کر طے کیے جاتے ہیں تاکہ عوام کا زیادہ تر طبقہ اُن کو حقیقت سے قریب تصور کر کے شوق سے دیکھے۔ لیکن آج کل جو موضوعات ڈراموں کا حصہ ہے وہ غالباً پاکستان کے عوام کا دو فیصد یا اُس سے بھی کم کو درپیش ہیں۔
مثلا سالی بہنوئی کے درمیان کسی تعلق کی کہانی ہر گھر کا موضوع نہیں ہے لیکن اُس پر بننے والا ڈرامہ یقیناً ہر گھر میں دیکھا جا رہا ہے۔ پڑوسی ملک میں پاکستانی ڈرامے زیادہ پسند کیے جاتے تھے اور اُن کی فلمیں پاکستان میں لیکن اب وہاں سے بھی لوگ شکوے کرتے نظر آتے ہیں کہ ہر پاکستانی ڈرامے میں طلاق اتنی آسانی سے اور اتنی جلدی ہو جاتی ہےکہ جیسے پاکستان ”طلاق اسٹیٹ‘‘ ہے۔
اِس معاملے نا صرف پاکستانی ڈرامے کے ہدایتکاروں اور پیشکاروں کو سوچنا چاہیے بلکہ مصنفین اور ٹی وی چینلز کے مالکان کو بھی ملک میں ایک بہتر معاشرہ پروان چڑھانے کے لیے ڈراموں کے موضوعات پر توجہ دینی چاہیے۔