گلگت بلتستان میں انتخابی مہم عروج پر
اکابرین ایک دوسرے پر سرعام کیچڑ اچھال رہے ہیں۔ مرکزی سیاسی جماعتوں کے بڑے اجتماعات جاری ہیں، جبکہ مقامی سطح کے رہنماؤں کو تاحال کو اسٹیج نہیں ملا۔
پاکستان کے عارضی صوبہ گلگت بلتستان میں صوبائی اسمبلی کے لیے انتخابی مہم دھواں دھار انداز میں جاری ہے۔ 15 نومبر کو سجنے والے انتخابی اکھاڑے کے لیے سیاسی جماعتوں نے کمر کسی ہوئی ہے پُر ہجوم جلسے جلوسوں کی سلسلہ جاری ہے۔
مسلم لیگ (ن)، پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف جلسے کر چکی ہیں جبکہ جے یو آئی (ف) بھی میدان میں موجود ہے۔
یہ پہلی مرتبہ ہے کہ گلگت بلتستان کے انتخاب میں تمام مرکزی سیاسی جماعتیں اتنی تندہی سے حصہ لے رہی ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو 22 اکتوبر اپنی تمام سیاسی مصروفیات ترک کر کے 22 روزہ دورے پر گلگت بلتستان کے پہنچے تھے۔ مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر اور سابق وزیراعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز 5 نومبر روز اسکردو پہنچیں۔ بلاول بھٹو زرداری، مریم نواز اور دیگر اکابرین گلگت بلتستان میں بڑے بڑے اجتماعات سے خطاب کر رہے ہیں۔ جبکہ وزیر اعظم عمران خان بھی چند روز قبل وہاں کا دورہ کر چکے ہیں۔
بلاول بھٹو اور مریم نواز اب تک کئی جلسے کر چکے ہیں۔ جلسوں میں دونوں جماعتوں کو عوام کی بڑی تعداد کی شرکت مل رہی ہے۔
ادھر نواز شریف کے "مجھے کیوں نکالا” کے شکوہ کے بعد بلاول بھٹو نے "گلگت بلتستان سے واپس نہیں جاؤں گا” کی ضد پکڑ لی۔ دو روز قبل دیامر میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ حکومت چاہے تو گرفتار کرلے یا گلگت بلتستان بدر کردے لیکن وہ وہاں سے واپس نہیں جائیں گے۔
اُنہوں نے بغیر کسی سیاسی جماعت کا نام لیے بیان دیا کہ ”ہمیں دیکھ کر کچھ اور سیاسی جماعتیں بھی گھبرانا شروع ہوگئیں ہیں۔‘‘
عوامی اجتماعات میں بڑی سیاسی جماعتوں کے رہنما سرعام ایک دوسرے پر کیچڑ اچھال رہے ہیں۔ گزشتہ روز خپلو میں جلسہ ہوا جس میں وفاقی وزیر مواصلات مراد سعید اور علی امین گنڈاپور نے خطاب کیا۔ دونوں رہنماؤں کو سننے کے لیے عوام بڑی تعداد میں موجود تھی۔ مراد سعید کا کہنا تھا کہ چوروں نے ملک کو لوٹا اور گلگت بلتستان کو بھی نہیں چھوڑا۔
یہ بھی پڑھیے
پی ڈی ایم کے حلیف گلگت بلتستان میں حریف
جبکہ وفاقی زیر برائے امور کشمیر و گلگت بلتستان علی امین گنڈا پور نے سابق وزیراعظم نواز شریف اور سابق صدر آصف زرداری کے حامیوں کو غدار قرار دے دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ آصف زرداری قوم کا پیسہ لوٹ کر کھرب پتی بنے۔ جبکہ نواز شریف پیسے بھی لوٹ کر لے گئے اور فوج کے خلاف بھی بول رہے ہیں۔ جو ان کے جھنڈے لے کر پھر رہا ہے وہ بھی غدار ہے۔
علی امین گنڈاپور نے مریم نواز کو بھی نہ بخشا۔ انہوں نے مریم پر ذاتی حملے کرتے ہوئے کہا کہ مریم نواز نے والد کے دو حکومتوں میں ٹیکس کے پیسوں سے خود کو خوبصورت بنانے کیلئے کروڑوں روپے کی فیس سرجریز کرائی ہیں۔
بلاول بھٹو زرداری نے بھی جواباً علی امین گنڈا پور کو گندا پور کہہ دیا۔ قومی سیاست میں اِس قسم کے القابات سے نوازا جانا اور غداری کے سرٹیفکیٹس بھرے پنڈال میں تقسیم کیے جانے کا رجحان نیا ہے۔ سیاسی تجزیہ نگار اِسے نقصان دہ رجحان قرار دے رہے ہیں۔
حزبِ اختلاف کی تمام جماعتیں ویسے تو متحد ہیں، لیکن گلگت بلتستان میں ایک دوسرے کے مخالف کھڑی ہیں۔ یہاں ان کا اتحاد مخالفت میں بدل گیا ہے۔ تمام جماعتوں کی سرتوڑ کوشش ہے کہ گلگت بلتستان کی حکومت ان کے حصہ میں آجائے۔
اکابرین ایک دوسرے پر سرعام کیچڑ اچھال رہے ہیں۔ مرکزی سیاسی جماعتوں کے بڑے اجتماعات جاری ہیں، جبکہ مقامی سطح کے رہنماؤں کو تاحال کو اسٹیج نہیں ملا۔
اجتماعات میں کرونا وائرس کے ایس او پیز کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں۔ دوسری جانب طبی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر جلسے جلوس اور مذہبی اجتماعات جاری رہے تو ملک میں کرونا کی صورتحال خراب ہوسکتی ہے۔
واضح رہے کہ گلگت بلتستان کے 24 حلقوں میں عام انتخاب 15 نومبر کو ہوں گے۔ گلگت بلتستان کی اسمبلی بننے کے بعد سے یہ تیسرے انتخاب ہیں۔ اسمبلی کی 24 نشستوں کے لیے 7 لاکھ سے زیادہ رائے دہندگان اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے کے اہل ہیں۔ اسمبلی اراکین کی کل تعداد 33 ہے جن میں سے 24 کا انتخاب براہ راست عمل میں آتا ہے۔ جبکہ 6 نشستیں خواتین اور 3 ٹیکنوکریٹس کے لیے رکھی گئی ہیں۔