شہباز زرداری ملاقات، اتحادیوں کے تحفظات پر تفصیلی گفتگو

شہباز، زرداری ملاقات میں ایم کیو ایم، اے این پی، بی اے پی، جے یو آئی ف، مینگل  گروپ کو منانے پر تبادلہ خیال کیا گیا

موجودہ حکومت کی تشکیل کو چند ماہ ہی ہوئے ہیں مگر اتحادیوں کے گلے شکوے بڑھتے جارہے ہیں اور حکومتی صفوں میں دراڑیں پڑتی دکھائی دے رہی ہیں۔ حکومت کے سامنے یہ اہم سوال ہے کہ اتحادی جماعتوں کے بڑھتے ہوئے تحفظات کیسے دور کئے جائیں۔

وزیراعظم شہبازشریف اور آصف زرداری سر جوڑ کر بیٹھ گئے۔ گزشتہ روزملاقات میں مشاورت کی گئی کہ ایم کیو ایم، عوامی نیشنل پارٹی، بلوچستان عوامی پارٹی ،جمعیت علما اسلام، بلوچستان عوامی پارٹی مینگل اور آزاد اراکین  کو کیسے مطمئن کریں۔ موجودہ نوخیز حکومت کو جہاں معاشی مسائل سمیت کئی چیلنجز درپیش ہیں وہاں حکومتی اتحاد میں شامل مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلز پارٹی کے اتحادی بھی مطالبات منظور اور تحفظات دور نہ ہونے پر ناراضی کا اظہار کرچکے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

ایاز امیر نے رجیم چینج کانفرنس میں عمران خان کو کھری کھری سنادی

لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز کے حلف کے خلاف پی ٹی آئی کی درخواستوں کی منظوری کے بعد اتحادیوں سے رابطے تازہ اور ان کے تحفظات دور کرنے کی ضرورت دو چند ہوگئی۔ وزیراعظم شہباز شریف اور سابق صدر و پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری کے درمیان ملاقات میں کہا گیا کہ اتحادیوں کے بڑھتے ہوئے تحفظات نیک شگون نہیں،اس معاملے پر توجہ نہ دی گئی تو مستقبل میں یہ اتحادی حکومت کے لئے سنگین چیلنج بن سکتا ہے۔

وزیراعظم ہاؤس میں ہونے والی ملاقات میں موجودہ سیاسی صورتحال پرسیر حاصل گفتگو اور اتحادیوں کو منانے پر بات ہوئی۔بلوچستان عوامی پارٹی کے تحفظات پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔ملاقات کے دوران چئیرمین نیب کی تقرری سمیت حکومتی امور پر بھی غور بات چیت ہوئی۔

 

حکومتی اتحاد میں شامل ایم کیو ایم ،عوامی نیشنل پارٹی ،بلوچستان عوامی پارٹی اور جمعیت علما اسلام فضل الرحمان کے علاوہ بلوچستان عوامی پارٹی مینگل اور بعض آزاد حیثیت میں حکومت کی حمایت کرنے والے اراکین اسمبلی کو حکومت یعنی مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلزپارٹی سے گلے شکوے ہیں  جبکہ مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما بھی ایک دوسرے کے خلاف دبے الفاظ میں شکوے کرتے سنائی دیتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر وہ اپنے حلقوں کے عوام کو مطمئن نہ کرپائے اور ایسی حکومت کا حصہ رہے جو ہر روز بڑھتی ہوئی مہنگائی،بجلی کی لوڈ شیڈنگ اور دیگر معاملات کے سبب مقبولیت کھوتی جارہی ہے۔تو ایک برس بعد ہونے والے انتخابات میں حسب توقع نشستیں حاصل نہیں کر پائیں گے۔

شہباز شریف، آصف علی زرداری،وزیر خارجہ بلاول بھٹو، سردار ایاز صادق اورسعد رفیق کی ملاقات میں ایم کیو ایم کے تحفظات پر بات ہوئی۔جنہوں نے پیپلز پارٹی سے معاہدے پر عمل درآمد نہ ہونے پر شہباز شریف سے مداخلت کی درخواست کی تھی۔وزیراعظم نے آصف زرداری سے ایم کیو ایم کے تحفظات پر مشاورت کی  اور درخواست کی کہ متحدہ قومی موومنٹ کے سے کئے گئے تحریری معاہدے پر عملدرآمد کیا جائے۔

متحدہ قومی موومنٹ کو پہلے ہی یہ شکایت تھی کہ کئی اہم عہدے وعدے کے باوجود انہیں نہیں دیئے گئے۔تاہم اب سندھ میں حالیہ بلدیاتی انتخابات اور  اس کے نتائج  پر بھی متحدہ نےشدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے الزام عائد کیا ہے کہ جن حلقوں میں اس کے امیدوار جیت رہے تھے وہاں نتائج روکے گئے۔ایم کیو ایم رہنما وسیم اختر کا کہنا ہے کہ معاہدے کی وجہ سے خاموش ہیں، اگر  پیپلزپارٹی معاہدے سے منحرف ہوتی ہے توایم کیو ایم بھی بہادر آباد کو تالا لگا کر سڑکوں پرہوگی۔

 بلوچستان سے تعلق رکھنے والے آزاد رکن اسمبلی اسلم بھوتانی نے بھی  وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات کی اور انہیں  تحفظات سے آگاہ کیا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے اسلم بھوتانی کو تحفظات دور کرنے کی یقین دہانی کرائی۔جمعیت علما اسلام فضل الرحمان گروپ کو شکایت ہے کہ حکومت نے وفاقی شرعی عدالت کے سود کے خلاف فیصلے  پر نظرثانی کی درخواست کیوں دائر کی۔

عوامی نیشنل پارٹی کی مرکزی قیادت کا اجلاس گزشتہ روز ایمل ولی خان کی صدارت میں ہواجس میں حکومتی اتحاد کے وعدوں اور عملدرآمد  پر بات چیت ہوئی،  اجلاس میں  اے این پی رہنماؤں نے حکومتی اتحاد سے علیحدگی کی تجویز دے دی۔اس حوالے سے مرکزی قیادت کا اجلاس عید کے بعد طلب کرنے کا فیصلہ کیا گیا جس میں  حتمی فیصلے کئے جائیں گے۔

حکومتی اتحادی جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کو شکایت ہے کہ لاپتہ افراد کی بازیابی سمیت بلوچستان کے دیگر معاملات پر حکومت وعدے پورے نہیں کررہی۔بلوچستان عوامی پارٹی کو جہاں مناسب فنڈز نہ ملنے کا شکوہ ہے وہاں وہ نظر انداز کئے جانے اور صوبے بلوچستان کے احساس محرومی دور نہ ہونے کا بھی گلہ کررہے ہیں۔

متعلقہ تحاریر