اسپیکر قومی اسمبلی پی ٹی آئی کے تمام استعفے ایک ساتھ منظور کیوں نہیں کرتے؟ سپریم کورٹ
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کا کہنا ہے اسمبلی جانا نہ جانا پی ٹی آئی کا سیاسی فیصلہ ہے تاہم اداروں کو فعال کرنا ہو گا، بڑی سیاسی جماعت اسمبلی سے باہر ہو تو وہ فعال کیسے ہو گی۔
سپریم کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی والے تنخواہ بھی لے رہے ہیں اور اسمبلی بھی نہیں جاتے جب کہ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئےکہ اسپیکر قومی اسمبلی تمام استعفے ایک مرتبہ کیوں منظور نہیں کرتے؟جس رکن کو اسپیکر کے فیصلے پر اعتراض ہوگا وہ اس کا اظہار کردے گا۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں بینچ نے نیب ترامیم کے خلاف چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی درخواست کی سماعت کی۔
یہ بھی پڑھیے
پاکستان سے ڈالر اور یوریا کھاد کی اسمگلنگ ہورہی ہے، اسحاق ڈار کا اعتراف
ریکوڈک منصوبے کی منظوری: جے یو آئی اور بی این پی کا کابینہ اجلاس سے واک آؤٹ، حکومتی اتحاد خطرے میں
جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ تحریک انصاف کے ممبران رکن قومی اسمبلی ہیں یا نہیں؟۔
عمران خان کے وکیل نے بتایا کہ پی ٹی آئی کے تمام ارکان اسمبلی استعفٰی دے چکے ہیں، کچھ نشستوں پر ضمنی الیکشن ہوئے اور پی ٹی آئی کامیاب ہوئی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دئیے کہ پی ٹی آئی کا حق ہے وہ اسمبلی سے استعفٰی دے یا نہ دے۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطاء بندیال نے ریمارکس دئیے کہ اسمبلی جانا نہ جانا پی ٹی آئی کا سیاسی فیصلہ ہے، اداروں کو فعال کرنا ہو گا، پارلیمان ایک بنیادی ادارہ ہے، بڑی سیاسی جماعت اسمبلی سے باہر ہو تو وہ فعال کیسے ہو گی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ پی ٹی آئی ارکان کیا آج بھی قومی اسمبلی کے رکن ہیں یا نہیں؟
عمران خان کے وکیل کا کہنا تھاکہ تحریک انصاف کے تمام ارکان قومی اسمبلی سے مستعفیٰ ہوچکے ہیں، کچھ نشستوں پر ضمنی الیکشن ہوئے اور پی ٹی آئی کامیاب ہوئی، سیاسی حکمت عملی کے تحت اسپیکر استعفے منظور نہیں کر رہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ کسی حلقے کو غیر نمائندہ اور قومی اسمبلی کو خالی نہیں چھوڑا جا سکتا، پی ٹی آئی والے تنخواہ بھی لے رہے ہیں اور اسمبلی بھی نہیں جاتے، اسلام آباد ہائی کورٹ نے پی ٹی آئی ارکان کو اسپیکر کے سامنے پیش ہونے کا کہا تھا۔
خواجہ حارث نے نکتہ اٹھایا کہ جن ارکان کے استعفے منظور ہوئے وہ کونسا اسپیکر کے سامنے پیش ہوئے تھے، اسپیکر ایک دن سو کر اٹھے اور چند استعفے منظور کر لیے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ اسپیکر ایک ساتھ تمام استعفے کیوں منظور نہیں کرتے؟ جس رکن کو مسئلہ ہوگا اسپیکر کے فیصلے پر اعتراض کر دے گا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے وکیل سے پوچھا کہ اگر اسپیکر کو چار دن میں استعفے منظور کرنے کا حکم دیں تو کیا پی ٹی آئی تیار ہے؟
خواجہ حارث نے جواب دیا کہ عدالت ایسا حکم جاری کرتی ہے تو اس کیلئے مکمل تیار ہیں، پی ٹی آئی تو انتخابات کرانے کا ہی مطالبہ کر رہی ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ استعفوں کا سوال سیاسی نہیں آئینی ہے، استعفے منظور نہیں ہو رہے تو پی ٹی آئی عدالت سے رجوع کیوں نہیں کرتی؟
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عدالتوں میں پی ٹی آئی سے متعلق کئی درخواستیں زیر التوا ہیں، وکیل نے کہا کہ میرا مطالبہ عوام میں جانے اور عام انتخابات کا ہے اس سے زیادہ اور کیا کروں؟ سیاسی سوالات کا قانونی جواب نہیں دیا جا سکتا۔
عمران خان نے موجودہ حکومت کی جانب سے نیب ترامیم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر رکھا ہے ، عدالت عظمیٰ میں دائر درخواست میں عمران خان نے استدعا کی تھی کہ سیکشن 14، 15، 21، 23 میں ترامیم بھی آئین کے منافی ہیں۔ نیب قانون میں یہ ترامیم آئین کے آرٹیکل 9، 14، 19، 24, 25اے کے بنیادی حقوق کے برعکس ہیں، نیب قانون میں کی گئی ان تمام ترامیم کو کالعدم قرار دیا جائے۔